میرے سامنے ضیا حدید تھیں۔ لبنانی اور مصری ماں باپ کی بیٹی جس نے کینبرا، آسٹریلیا میں ایک تارک وطن کے طور پر آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ صحافت سے وابستہ ہوئیں اور اس وقت محمد حنیف کے نئے ناول "سرخ پرندے" کے اردو ترجمے پر گفتگو کے لیے موجود تھیں۔ ان دنوں نیشنل پبلک ریڈیو، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ ہیں، پاکستان میں اس ریڈیو کے نمائندے عبدالستار ان کے ساتھ تھے۔
ضیا ان دنوں مشرقی یروشلم میں رہتی ہیں اور 9 مہینے کی بیٹی کو باپ کی نگرانی میں چھوڑ کر آئی ہیں، کچھ دیر بعد ان کی واپسی کی فلائٹ تھی اور وہ اس بات پر خوش تھیں کہ 24 گھنٹوں میں ان کی بیٹی ان کی آغوش میں ہو گی۔
محمد حنیف آج ایک انٹرنیشنل سیلے بریٹی ہیں لیکن میں انھیں اس وقت سے جانتی ہوں جب وہ "نیوزلائن" میں کام کرتے تھے۔ بی بی سی کی ششی سنگھ کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت "پھٹتے ہوئے آم" ان کے ذہن میں پرورش پا رہے تھے۔
اوکاڑہ میں پیدا ہونے والے محمد حنیف نے ائیرفورس میں شمولیت اختیار کی اور امریکی طیارے پر فائٹر پائلٹ کی تربیت حاصل کی لیکن بہت جلد اپنے اس انتخاب سے اکتا گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس سہ پہر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا، اس روز میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ ٹیلی وژن دیکھ رہا تھا اور جب ہمیں یقین ہو گیا کہ ایک ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی ہے تو ہم نے ایک بوتل پر خوشی منائی۔ اس واقعے کے تین مہینے بعد حنیف نے پاکستان ائیر فورس سے استعفیٰ دے دیا حالانکہ ان کی ملازمت کی مدت میں ابھی دس برس باقی تھے۔
ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد حنیف اوکاڑوی نے صحافت اختیار کی اور آخرکار "نیوزلائن" سے وابستہ ہو گیا جہاں اس نے ڈاکوئوں، ڈرگ مافیا اور خطرناک گروہوں کے بارے میں لکھا۔ اس کے دوستوں کا خیال تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ بے دھڑک ایسی حقیقتیں لکھتا رہا جن کے بارے میں لوگ کچھ نہیں جاننا چاہتے تھے۔ وہ چھ برس لندن میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ رہا۔ جنرل ضیا الحق کے طیارے کو پیش آنے والا حادثہ محمد حنیف کے ذہن کو سوچنے پر مجبور کرتا رہا اور پھر اس نے اپنی بیوی نمرہ بُچہ کے ساتھ مل کر اپنے پہلے ناول پر کام کیا۔ جس کے بارے میں اس کے قریب ترین دوستوں کو بھی کچھ نہیں معلوم تھا۔
انگریزی میں لکھنا اور چھپنا اس حوالے سے "محفوظ" ہے کہ عام آدمی اسے پڑھتا نہیں اور مقتدر حلقوں کے پاس پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ محمد حنیف کے ناول کو پاکستان کے کسی پبلشر نے شائع کرنے سے انکار کر دیا، تب اسے ہندوستانی پبلشر رینڈم ہائوس کی چکی سرکار نے شائع کیا۔ اس کے چند ہزار نسخے پاکستان پہنچے تو یہاں کی ادبی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ ناول میں بے دھڑک انداز میں مقتدر ترین حلقوں کو طنز اور مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ حنیف کے قریبی حلقوں کا خیال تھا کہ وہ کسی وقت بھی "غائب" ہو سکتا ہے اور اس کا مقدر بھی کسی زندان کے تہہ خانے میں ایک متشدد موت ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اس کے بعد بھی حنیف نے کئی ادبی ناول اور کہانیاں لکھیں، تازہ ترین "دی ریڈ برڈز" ہے لیکن اس کے درمیان اس کا ایک اہم کام وہ رپورٹ ہے جو اس نے 2 فروری 2012ء میں ایچ آر سی پی کی ہدایت پر بلوچستان کے غائب ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں مرتب کی۔
وہ بلوچ نوجوان جو اپنے گھروں سے، چائے کے کسی ڈھابے یا سڑک کے کسی کونے سے اٹھا لیے گئے، ان پر کیا گزری، یہ ایک سوہان روح داستان ہے۔ اس میں ان سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کا قصہ ہے جو اپنے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ یہ آوازیں شاید کسی تہہ خانے میں اب بھی گونجتی ہوں یا سلا دی گئی ہوں۔ اس رپورٹ میں قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل رکی کی داستان الم ہے۔ دو برس اور آٹھ مہینوں بعد گم شدہ جلیل ہلاک کر دیا گیا، اس کی لاش تربت کے قریب ملی۔ بوڑھے باپ نے بیٹے کے بدن پر تشدد کے تمام نشانات گنے۔ اس کی پشت پر جلنے کے نشانات تھے، شاید اسے سگریٹوں سے داغا گیا تھا۔ اس کے دل کے قریب گولیوں کے تین زخم تھے۔ اسے کئی دن پہلے قتل کیا گیا تھا لیکن اس کا بدن کسی شہید کی طرح تر و تازہ تھا۔
بوڑھا باپ بیٹے کا پارہ پارہ بدن کراچی لے آیا اور پریس کلب کے سامنے بیٹھ گیا۔ شاید بڑے اخبارات اس بے کس اور بے بس نوجوان کے بارے میں کچھ لکھیں جو کتابوں کا رسیا تھا اور جس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ تھا۔ محزوں اور ملول بوڑھے نے یہ بھی کیا کہ اپنے ساڑھے چاربرس کے پوتے کو گھر سے لایا اور اسے باپ کے بدن کے تمام زخم دکھائے۔ وہ کہتا ہے " لوگوں نے مجھے روکنا چاہا لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ میں دو برس اور آٹھ مہینے تک اپنے بوتے سے جھوٹ بولتا رہا تھا، اسے دلاسا دیتا رہا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ وہ سچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ اس نے جب اپنے باپ کی پھوٹی ہوئی آنکھ دیکھی تو اس نے پوچھا کہ بابا کے ساتھ یہ کس نے کیا ہے تو میں نے اسے بتا دیا۔ اس بچے کے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے کوئی صدمہ نہیں پہنچنا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے حقیقت جان لینی چاہیے۔ وہ جب تک زندہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بے گناہ باپ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔" بوڑھے بلوچ کی آواز میں ذرا سی بھی لرزش نہیں تھی۔
محمد حنیف نے یہ رپورٹ یقینا جان پر کھیل کر لکھی۔ وہ قابل داد ہے۔ لیکن یاد رہے کہ جب سے وہ انٹرنیشنل سیلے بریٹی بنا ہے اس وقت سے ایک نظر نہ آنے والا حفاظتی دائرہ اس کے گرد کھنچا ہوا ہے۔ وہ اگر "غائب" ہو جاتا ہے یا کسی پارک میں ٹہلتے ہوئے کسی آوارہ گولی کا نشانہ بن جاتا ہے تو یہ ایک بڑی خبر ہو گی اور بڑی خبریں آسانی سے چھپائی نہیں جا سکتیں۔
ضیا حدید کو اس کی پریشانی تھی کہ اس کے نئے ناول ’دی ریڈ برڈز" کا اردو ترجمہ صرف ایک ہزار کی تعداد میں کیوں چھپ رہا ہے۔ ضیا کے اس سوال پر میں شرمندہ تھی۔ اسے یہ تو معلوم ہی نہیں کہ اب ہمارے یہاں بیشتر کتابیں 500 کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے، دوسرے ان لوگوں کی قوتِ خرید روز بہ روز کم ہو رہی ہے جو کتابیں خریدنے کے رسیا ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پڑھنے کی طرف راغب نہیں کیا جاتا۔ ان کے دل میں ادب کی شناوری کا شعلہ نہیں بھڑکتا۔
محمد حنیف کا نیا ناول ’سرخ پرندے" اس امریکی جیٹ بمبار کا قصہ ہے جسے اس کے افسران بالا نے یہ باور کرایا تھا کہ وہ جس علاقے میں بم گرانے جا رہا ہے، وہ دراصل دہشتگردوں کا کیمپ ہے۔ امریکی ائیر فورس کا میجر ایلی اس یقین کے ساتھ اپنا طیارہ اور اس میں بھرے ہوئے بم لے کر اڑتا ہے لیکن اس کا طیارہ ایک صحرا میں کریش کر جاتا ہے۔ وہ آٹھ دن تک بھوکا پیاسا صحرا میں بھٹکتا رہتا ہے اور یہ بات تو اسے بعد میں معلوم ہوتی ہے کہ جس جگہ کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا وہا ں دہشتگردوں نے اسلحے کے ڈھیر لگارکھے ہیں، وہاں وہ لوگ ہیں جن سے ان کے گھر چھن چکے ہیں اور امریکی جنگ نے انھیں ان کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کر دیا ہے۔
اس ناول میں امریکا کے اس کردار کو اجاگر کیا گیا ہے جو اس نے شرق اوسط کے ملکوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ادا کیا ہے۔ جنگ کس طرح انسانوں کو غیر انسان بناتی ہے اور ان سے ہر انسانی خوبی چھین لیتی ہے۔ کس طرح انسانی بدن سے اڑتے ہوئے خون کے چھینٹے سرخ پرندے بن جاتے ہیں۔
کرہ ارض پر امریکا کیوں انسانی خوشیوں کا قاتل ہے، بچے کس طرح اپنے بچپن اور اپنی معصومیت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر صرف امریکیوں اور مغرب کو ہی نہیں ہمیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے بہت سے مغرب کا سایہ بن کر جینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہم واقعی چین آرام سے ہیں؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے جس کا ہم سب کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔