Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nerangi e Zamana Aur Solzhenitsyn (2)

Nerangi e Zamana Aur Solzhenitsyn (2)

اس کا وہ ضخیم کام جس نے اسے کچھ زیادہ ہی متنازعہ فیہ بنایا، وہ " گلاگ " کی یاد داشتیں ہیں۔"گلاگ" وہ بیگار کیمپ تھے جن میں کام کرنے والوں کی اکثریت مختلف جرائم میں سزا پانے والوں پر مشتمل تھی۔

یہ بیگار کیمپ اتنی شہرت نہ پاتے اگر یہاں سیاسی قیدیوں، حکومت مخالف ادیبوں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھیجی نہ گئی ہوتی۔ سولزے نتسن کی " گلاگ " یادداشتیں، سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں مغرب کے ہاتھوں ایک ایسا ہتھیار بن گئیں جسے بہ طور خاص امریکا نے سوویت نظام کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کیا۔

سولزے نتسن کو اپنے وطن سے عشق تھا اور اس کے ساتھ ہی سچ سے بھی۔"گلاگ" میں یہ دونوں عشق ایک دوسرے سے متصادم ہوئے اور سولزے نتسن سوویت بیوروکریسی کا ناپسندیدہ ترین فرد بن گیا۔ تین لاکھ لفظوں پر پھیلی ہوئی یہ کتاب سولزے نتسن کی اپنی تلخ یاد داشتوں اور بیگار کیمپوں میں جبری مشقت کرنے والے227 افراد کی گواہیوں اور شہادتوں پر مشتمل ہے۔

اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت و اقتدار کے نشے میں چور افراد خود سے اختلافات کرنے والے دوسرے انسانوں کے لیے کیسے بھیانک جہنم تخلیق کرتے ہیں۔"گلاگ " یاد داشتیں 1958 سے 1968 کے دوران لکھی گئیں۔ محکمۂ خفیہ تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی۔ کتاب کی اشاعت روکنے کے لیے مسودہ ٹائپ کرنے والی لڑکی کا کھوج لگا کر اسے اٹھا لیا گیا۔ تشدد کے نتیجے میں مسودہ برآمد ہوگیا اور لڑکی نے خود کشی کرلی جسے اس بات کا علم نہ تھا کہ مسودے کی ایک کاپی ملک سے باہر اسمگل کی جاچکی ہے۔

اس المناک واقعے نے سولزے نتسن کو ہلا کر رکھ دیا۔"گلاگ" کا مسودہ پیرس میں سولزے نتسن کے پبلشر کے پاس پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ سولزے نتسن جو ابھی تک کتاب کو پہلے اپنے ملک میں چھپوانا چاہتا تھا اس واقعے کے بعد اس نے "گلاگ" کو فرانس میں چھاپنے کی اجازت دے دی۔ 1973میں کتاب کا چھپنا تھا کہ اسے "غدار" قرار دے دیا گیا۔

فروری 1974 میں وہ دوبارہ گرفتار ہوا، اس کی شہریت منسوخ ہوئی اور اسے دوبارہ جلاوطن کردیا گیا۔ یورپ میں مختصر مدت گزارنے کے بعد وہ امریکا چلا گیا جہاں ایک مضافاتی علاقے میں اس نے 18 برس یوں گزارے کہ ہمہ وقت لکھنے اور پڑھنے میں مشغول رہا اور ہر لمحہ وطن واپس لوٹنے کے خواب دیکھتا رہا۔

وہ ایک ایسا دانشور اور ادیب تھا جس کے خیال میں سچ بولنے اور لکھنے کے لیے ہر عقوبت سہی جاسکتی ہے اور جان بھی دی جاسکتی ہے۔ اس کے ناقدین اس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے نوبل انعام اور دوسرے اعزازات کے عوض سوویت یونین کے خلاف اپنا قلم اٹھایا۔ وہ اس بات پر نظر نہیں کرتے کہ جب وہ مغرب میں مقیم تھا تو اس نے اتنے ہی دو ٹوک انداز میں مغربی سماج اور اقدار کے خلاف لکھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے 1978 میں اسے اپنی سب سے اعلیٰ اعزازی ڈگری عطا کی۔ اس موقع پر ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا:

" مغرب نے اپنی دانشورانہ جرأت کھو دی ہے۔ ہر مغربی ملک، تمام حکمران، سیاسی جماعتیں اور بہ طور خاص اقوام متحدہ اپنی اخلاقی جرأت کھوچکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب میں اعلیٰ دانش اور اخلاقی جرأت رکھنے والے افراد کی کمی ہے۔

وہ موجود ہیں اور اپنی بساط بھر جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن مجموعی اور عمومی صورتحال پر اثر انداز ہونا ان کے بس میں نہیں۔ مغربی حکمران اشرافیہ کمزوروں کے سامنے نام نہاد جرات کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن بات جیسے ہی طاقتور حکومتوں کو ٹوکنے یا ان کی مزاحمت کرنے کی آتی ہے تو اس حکمران اشرافیہ کے لب سل جاتے ہیں اور وہ خاموشی سے کمزور اقوام اور افراد کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو دیکھتی رہتی ہے اور اخلاقی اور دانشورانہ زوال کی عبرتناک تصویربن جاتی ہے۔"

وہ ہمیشہ ایک متنازعہ فیہ شخصیت رہا۔ سوویت یونین کی حکمران اشرافیہ اس سے ناراض رہی اور مغرب جہاں سے اسے نوبل انعام اور دوسرے اعزازات ملے وہاں بھی اس کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کی تحریروں کی تکریم کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس سے کس وقت کس بات کی توقع رکھیں۔ کبھی وہ اسے ویت نام کی جنگ میں پسپائی پر امریکی حکام کو برا بھلا کہتے سنتے، کبھی وہ شمالی ویتنام کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکیوں پر گرجتا برستا اور کہتا کہ ان نام نہاد امن پسندوں نے ایک عالمی طاقت کو شرمناک پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔

پھر یہ بھی ہوا کہ نیٹو طیاروں نے جب یوگوسلاویہ پر بمباری کی تو اس نے نیٹو افواج کو ہٹلر کی نازی فوجوں سے تشبیہہ دی۔ وہ امریکا میں رہتے ہوئے مغربی جمہوریت، ٹیلی ویژن، اخبارات، مغربی موسیقی، روشن خیال اور روادار افراد کے خلاف بے دھڑک بولتا رہا اور وہاں کی جمہوریت، روشن خیال اور روا دار ادارے اور افراد اس کی ہر بات خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔

بیگار کیمپ سے واپسی کے بعد لکھنے کے لیے اس نے زندگی کا ہر آرام تج دیا۔ عیش سے وہ واقف ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی اس کی کلیات 30ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں سے بیشتر کام ابھی انگریزی یا فرانسیسی میں منتقل نہیں ہوا ہے، تاہم اس کے ناول، کہانیوں اور شاعری کے تراجم دنیا کی چالیس زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

امریکا میں جلاوطنی کے اٹھارہ برس گزارتے ہوئے اس نے وہ چار ناول لکھے جن کے عنوان "اگست 1914، ، نومبر 1916، مارچ 1917 اور اپریل 1917 ہیں۔ یہ ناول 1905 میں برپا ہونے والے انقلاب اور 1911 میں زار کے ایک وزیر کے قتل سے شروع ہوتے ہیں اور 1917 تک روس میں ہونے والے ان واقعات کا احاطہ کرتے ہیں جنھوں نے اس کے وطن کی زمین و آسمان منقلب کر دیے۔ چھ ہزار صفحات پر پھیلے ہوئے یہ ناول درحقیقت روس کی سیاسی، سماجی، ثقافتی، علمی اور ادبی تاریخ ہیں۔ یہ کام سولزے نتسن جیسا کوئی عبقری ہی کرسکتا تھا۔ جس کے ذہن میں صرف یہی دھن تھی کہ وہ اپنی جنم بھومی پر گزرنے والے ہردکھ اور سکھ کو رقم کرجائے۔

اگست 2008 میں وہ دنیا سے رخصت ہوا تو روس کا اہم ترین شہری تھا۔ 2007 میں صدر ولادی میر پیوٹن نے اس کے گھر جاکر اسے ملک کا سب سے بڑا اعزازState Prize of the Russain Fedration نذر کیا یہ وہ اعزاز ہے جو اسے میخائل گورباچوف اور بورس یلتسن نے دینا چاہا تو اس نے انکار کردیا تھا۔ وہ بیسویں صدی کا ایک عظیم دانشور، ادیب، مؤرخ اور عالمی شہری تھا۔ زندگی بھر سچ کی صلیب پر مصلوب رہنا اس کا اپنا انتخاب تھا اور متنازعہ فیہ رہنا اس کا مقدر۔ سو آج اپنی جنم بھومی میں بھی وہ متنازعہ فیہ ہے۔ اس کی موت کے فوراً بعد روسی صدر نے ماسکو کی ایک سڑک کا نام بدل کر اس کے نام سے منسوب کردیا جس پر اس سڑک کے رہنے والے اور پرانے کامریڈ سخت ناراض ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی ہے کیونکہ روسی قوانین کے مطابق کسی بھی شخص کے مرنے کے دس برس بعد ہی اس کے نام سے کوئی سڑک یا چوک منسوب کیا جاسکتا ہے۔ اس سڑک پر رہنے والوں، کامریڈوں اور حکومت کے درمیان ایک دھواں دھار لفظی جنگ چلی جو پھر قانونی لڑائی میں بدل گئی۔ اس سڑک کے نئے نام کی تختی مظاہرین دو مرتبہ اکھاڑ چکے۔ ماسکو کی شہری انتظامیہ نے اب " سولزے نتسن اسٹریٹ " کی تختی " میکڈونلڈ فاسٹ فوڈ" ریستوران کے برابر میں نصب کردی ہے۔

اس جگہ کے انتخاب پر خود سولزے نتسن بھی بر افروختہ ہوتا کیونکہ امریکی طرز زندگی سے وہ سخت اختلاف رکھتا تھا۔ امریکی فاسٹ فوڈ ریستوران کے برابر سے اپنے نام کی تختی تو وہ خود اکھاڑ پھینکتا۔ وہ ہمیشہ زندگی کے معاملات سے برسرجنگ رہا۔ نوبیل انعام کو قبول کرنے کے لیے لکھی جانے والی تقریر میں اس کے چند کلمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، خاص طور سے تیسری دنیا کے ادیبوں اور ادب کے حوالے سے۔ اس نے لکھا:

" تُف ہے اس قوم پر جس کا ادب طاقت کی دست اندازی سے درہم برہم ہو جاتا ہے، چوں کہ، یہ محض " اخبار کی آزادی " میں خلل اندازی نہیں ہوتی، یہ قوم کے دل کو دھڑکنے سے روک دیتی ہے، اس کی یاد داشت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ قوم اپنے آپ سے بے بہرہ ہوجاتی ہے، اپنی روحانی وحدت سے محروم ہوجاتی ہے، اور باوجود ایک مشترکہ زبان بولنے کے لوگ اچانک ایک دوسرے کو سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ قومیں جو خاموش رہتی ہیں، بوڑھی ہوجاتی ہیں، اپنے بارے میں، آپس میں یا اپنی آنے والی نسلوں سے کوئی بات کیے بغیر ہی مر جایا کرتی ہیں۔

جب AchmatovaاورZamjatin جیسے اہلِ علم و ہنر، جو اپنی تمام زندگی قید میں رہے، موت کے آنے تک خاموشیوں کے سلاسل میں جکڑ دیے جائیں، جن کے کانوں تک خود ان کی اپنی تحریروں کی بازگشت نہ پہنچے، تو یہ فقط ان کا ذاتی المیہ نہیں ہوتا، پوری قوم کے لیے یہ غم اور خطروں کا باعث ہوتا ہے۔"

اس کے آخری جملے کے بارے میں ہمیں بہت سوچنا چاہیے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.