ان کی رخصت کی خبر آئی تو حیرت نہ ہوئی۔ 93برس کی عمر میں کسی کے گزر جانے پر کیوں حیرت کی جائے لیکن وہ ہمارے ادب کا آخری رتن تھیں۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پیدا ہونے والی خواتین ادیبوں میں ایک بڑا نام جس سے ہم نے حسب روایت بے اعتنائی برتی۔ ایسی بے رخی ہم اپنی کسی سپر ماڈل کے ساتھ نہیں برتتے۔ آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والی شخصیت ہو، کچھ سچے جھوٹے سکینڈل ہوں تو بات بنے، لیکن ان میں یہ سب کچھ نہ تھا۔
لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے ان سے آخری ملاقات ہوئی تو ان کا قد بالا برسوں پہلے جیسا تھا اور چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ شگفتگی کی آمیزش۔ انگوری رنگ انھیں شاید کچھ زیادہ ہی پسند تھا۔ اس روز بھی جب وہ اپنے ڈیپ فریزر اور فریج میں سے کچھ سامان خورونوش نکلوا رہی تھیں تو انگوری رنگ کا لباس ان پر سج رہا تھا۔
نثار عزیز بٹ جو ہمارے درمیان 93 برس گزار کر خاموشی سے چلی گئی ہیں، وہ ہماری ایک باکمال ادیب تھیں۔ نہ شہرت کی ہوس اور نہ پبلک ریلیشنگ کا لپکا۔ ان سے فون پر بات ہوتی تو اس میں بھی وہ بہت سیدھے سبھاؤ اپنی کتابوں کے بارے باتیں کرتیں لیکن اپنے ناولوں سے زیادہ انھیں قرۃ العین حیدر، حجاب امتیاز علی اور خدیجہ مستورکے ناول یاد آتے۔
وہ 1925کے مردان میں پیدا ہوئیں اور زندگی مردانہ وار گزاری۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ماں کے چھتنار سائے سے محروم ہو جانے والی لڑکی جو سبزہ زاروں اور دریاؤں کے کنارے ٹہل ٹہل کر انگریزی شاعروں کو پڑھتی، کمرے میں سانپ نکل آنے کے خوف میں تیر کر زندگی کرتی چند برسوں بعد ایک بڑی ادیب بن کر سامنے آئے گی۔ مردان میں مرد بچے کم ہی پڑھتے تھے لیکن یہ ایسی لڑکی تھی جسے ریاضی سے عشق ہو گیا اور فلسفہ اس کے دل کا قرار۔
1925میں پیدا ہونے والی نثار کے اندر ایک باغی لڑکی چھپی بیٹھی تھی۔ گھر کے ماحول کے سبب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ باغی اپنی موت آپ مر جاتی لیکن نثار نے اپنے اندر سانس لیتی ہوئی لڑکی کو بہت اہتمام سے پرورش کیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے تعلیم اور شادی دونوں میں خاندانی روایات کی نفی کی۔ ریاضی اور فلسفہ پڑھتے ہوئے اس نے اپنے کاکا خیل خاندان میں شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ادھر اصغر بٹ ریڈیو پاکستان پشاور میں اس کو آتا جاتا دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر اس پر ہزار جان سے فدا ہو چکے تھے۔ آخر کار ان دونوں کی جیت ہوئی اور انھوں نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا جو عہد کیا تھا، اسے خوش دلی اور وقار سے نبھایا۔
انھیں ادیب ہونے کا شوق تھا اس شوق کا اکھوا بہت کم عمری میں ایک مضمون "غلام"کی صورت میں پھوٹا لیکن ایک ادیب کے طور پر ان کی پیدائش جولائی 1951میں ہوئی جب انھوں نے اپنے پہلے ناول "نگری نگری پھرا مسافر" کا پہلا باب لکھا۔ ان کے اس ناول کا نام میں نے ہاجرہ مسرور سے سنا۔ ان دنوں اپی رازی روڈ پر رہتی تھیں اور میں " اخبار خواتین" میں کام کر رہی تھی جس کا دفتر پی ای سی ایچ ایس کی بیالیسویں سڑک پر تھا۔ یہ وہ فورٹی سکینڈ اسٹریٹ تھی جس کا ذکر قرۃ العین حیدر نے اپنے ناولٹ "ہاؤسنگ سوسائٹی" میں کیا تھا اور مجھے یہ بات بہت خیال انگیز محسوس ہوتی تھی کہ میں اسی سڑک پر بنی ہوئی ایک وسیع اور شاندارکوٹھی میں کام کرتی ہوں۔
اپی کی نثار عزیز سے دوستی تھی، وہ ان کے بارے میں مجھے بتاتی رہیں۔ انھیں ٹی بی ہو گئی تھی اور اس زمانے میں ادیبوں کو ٹی بی ہونا کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ شاید یہ بھی ایک دلچسپ بات تھی کہ لکھنے والی اور اس کی ہیروئن ٹی بی میں مبتلا ہو جائیں۔"نگری نگری پھرا مسافر" اپی نے مجھے دی اور ان کے وسیلے سے میں نثار عزیز کے نام اور کام سے آگاہ ہوئی۔ نثار سے تعلق خاطر کا ایک سبب قرۃ العین حیدر بھی تھیں جو انھیں بہت عزیز تھیں۔ قرۃالعین حیدر "آگ کا دریا" کا چھکا مار کر ہندوستان واپس جا چکی تھیں، ہم ان کی کتابیں ذوق شوق سے پڑھتے اور "آگ کا دریا" جس کے بارے میں کیسے کیسے فسانے تھے اس کا ذکر رہتا۔ اس روز کے بعد نثار عزیز بٹ بھی ادیبوں کی اس صف میں شامل ہو گئیں، جنھیں پڑھنا اور جن کے بارے میں جاننا میرے لیے لازمی ہو گیا۔
نثار عزیز نے چار ناول لکھے۔ ان کا دوسرا ناول نے چراغے، نے گُلے، تھا۔ تیسرا کاروان وجود، اور آخری دریا کے سنگ،۔ وہ سہج سہج لکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1951 میں "نگری نگری پھرا مسافر" سے "دریا کے سنگ" کے درمیان پچاس پچپن برس کا فاصلہ تھا۔ انھیں پڑھنے والوں اور ان کی تحریر کے سحر میں گرفتار ہو جانے والوں کے لیے نصف صدی کا انتظار ایک لمبی مدت تھی۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ پڑھنے والوں کو اپنے محبوب لکھنے والوں کی تحریر کے لیے اسی طرح ترسنا ہوتا ہے۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے ان کا سنجیدہ مگر شگفتہ چہرہ میری نگاہوں میں پھر رہا ہے۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر موجودہ سیاست پر گفتگو کر رہی ہیں۔ ان کا دل دکھی تھا، وہ تقسیم کے خلاف تھیں۔ ان کی سمجھ میں مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کر دینا نہیں آتا تھا۔ وہ خوش نصیب تھیں کہ انھوں نے بٹوارے کا دکھ ذاتی سطح پر نہیں سہا۔ ان کا خاندان ٹکڑوں میں نہیں بٹا لیکن وہ اپنی بے مثال استانیوں کو ہندوستان دھکیلے جانے کے غم سے ابتدائی برسوں میں نڈھال رہیں اور جب انھوں نے یہ صدمہ سہہ لیا تو پھر ملکی سیاست ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس سیاست کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ زوال ملک کی بنیادوں میں بیٹھ رہا تھا۔
آدرش وادی پسپا ہو رہے تھے اور ایک اعلیٰ سرکاری افسرکی بیوی ہو کر بھی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی، گرفتاری اور پھر پھانسی پر خود کو نہیں روکتیں اور برملا یہ کہتی ہوئی سنائی دیتیں ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ ان کے قریبی لوگ انھیں سمجھاتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے شوہرکی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں لیکن وہ کسی ایک کی نہیں سنتیں اور محفلوں میں مارشل لا کے نحس اثرات پر کھل کر احتجاج کرتی ہیں۔
یہ بات آج شاید لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے لیکن وہ ایک سچی اور کھری انسان تھیں۔ انھوں نے تقسیم کے وقت بھی لگی لپٹی نہیں رکھی تھی۔ اپنی ایک بہترین استانی کے صرف اس لیے رد کیے جانے پر کہ وہ ہندو تھیں، انھوں نے بہت واویلا کیا تھا۔ ان کی بحالی کے لیے وہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور ان کی بیگم رعنا لیاقت علی تک جا پہنچی تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ریاضی، فلسفہ اور ادب کے موضوعات اور معاملات کو ہندو مسلم کے خانے میں بانٹ کر کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسے ملک اور ایسے زمانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں جہاں انسانوں کو ان کی خوبیوں اور ان کی ہنر مندیوں پر نہیں، ان کے مذہب اور مسلک پرجانچ کر دیکھا جاتا تھا/جاتا ہے۔
ذہنی اعتبار سے انھوں نے ایک گھٹی ہوئی فضا میں زندگی گزاری۔ اپنے دوست ادیبوں کی تحریروں اور خود اپنی تخلیقات کے دائروں میں پناہ لی اور ہمیں چار اعلیٰ ناول اور اپنی خود نوشت " گئے دنوں کا سراغ "کے تحائف دیے۔ یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ ہم ان کی قدر نہ کر سکے۔ اس بات پر گریہ کرنا لا حاصل ہے کہ یہ ہمارا وتیرہ ہے اور ہم اپنے اعلیٰ فنکاروں اور تخلیق کاروں کی قدر نہ کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
(جاری ہے)