1917کے بالشوک انقلاب نے جہاں دنیا میں تہلکہ مچایا، وہیں ہندوستان کے روشن خیال اور ترقی پسند افراد میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ ہندوستان اس وقت تاج برطانیہ کے زیر نگیں تھا، اس کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی نوید مسرت نہیں ہو سکتی تھی کہ ان کی سرحدوں سے کچھ ہی فاصلے پر راز شاہی جیسی سفاک اور قدیم سلطنت پرکاہ کی طرح اڑ گئی اور وہاں کے لوگوں پر ایک نیا سورج طلوع ہوا۔
ان دنوں ہندوستان کی تقریباً ہر زبان سمجھنے والوں میں روسی ادب اور ادیبوں کے بارے میں جستجو تھی۔ ایسے میں ہمارے ایک معتبر اور معروف محقق پروفیسر مجیب نے آٹھ برس کی محنت کے بعد اردو میں " روسی ادب " کے عنوان سے ایک وقیع کتاب لکھی۔
آج اس کتاب کی اشاعت کو اسّی برس گزر چکے ہیں۔ پروفیسر مجیب کی یہ کتاب میں نے نو عمری میں پڑھی تھی، اس وقت اس سے بہت متاثر ہوئی لیکن اس کے پہلے باب کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ اب جب کہ اس کا مطالعہ کیا، یہ اندازہ ہوا کہ پروفیسر مجیب نے جس کاوش سے روسی زبان اور ادب کا محاکمہ کیا ہے، وہ ہمارے لیے چشم کشا ہے۔
پروفیسر مجیب دوسری یورپی زبانوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں : "دوسری قوموں نے رفتہ رفتہ ادب کا ذخیرہ اکٹھا کیا جب کہ روسی ادب ایک طلسمی محل کی طرح حیرت انگیز تیزی سے وجود میں آ گیا۔"
پروفیسر مجیب نے اپنی بات عوامی گیتوں سے شروع کی ہے اور پھر قدیم روسی رزمیہ شاعری کا بیان ہے۔ قصے کہانیاں ہیں، روحانی قصے ہیں جنھیں پروفیسر نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس بات کا خصوصی طور سے ذکر کیا ہے کہ ان اخلاقی قصوں میں میسحیت کے نکات کو بہ طور خاص اجاگر کیا ہے۔
پیٹر اعظم اور ملکہ کیتھرین کے دور میں روسی ادب کو عروج ہوا۔ کہانیاں اور ناول لکھے گئے، شاعری تو ابتدائی زمانوں سے ہو رہی تھی لیکن یہ 1799 تھا جب پشکن جیسے عظیم شاعرکی پیدائش ہوئی۔ پشکن نے آزادی کی مدح میں چند نظمیں لکھیں لیکن اسے ایک فحش قصیدہ لکھنے کے جرم میں جلا وطن کر دیا گیا۔ اس جلا وطنی نے اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ روسی ادب کی تاریخ میں پشکن سب سے بڑا شاعر اور مدبر بن کر ابھرا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسی سے روسی ادب کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔
پشکن کے بعد چیخوف، ریلے یف، خوم یا کوف، کولٹ سوف، نکرا سوف، مائی کوف، یولون سکی اور دوسروں کا ذکرکرنے کے بعد وہ ہمیں روسی حکایتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ روسی ڈراما ملکہ کیتھرین دوم کے زمانے میں پروان چڑھا۔ اس فن میں اوس تروف سکی جیسے نابغۂ روزگار پیدا ہوئے۔ وہ چیخوف کی فنی عظمت کو ہم پر آشکار کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ چیخوف کے بعد استعاریت کی ادبی تحریک کمزور پڑ گئی۔
روسی ناول کا ذکر وہ گوگول کے تذکرے سے آغاز کرتے ہیں وہ ایک بڑا ڈراما نگار اور ناول نویس تھا۔ اس کا مقصد جی بہلانے والی کہانیاں لکھنا نہیں، وہ اپنی تحریر کے آئینے میں اپنے ہم وطنوں کو زندگی کے حقائق کی جھلکیاں دکھاتا تھا۔ گوگول روس ہی نہیں دنیا کے بڑے ناول نگاروں میں شمارکیا جاتا ہے۔
انیسویں صدی کے روس میں کئی بڑے ناول نگار اور ڈراما نویس پیدا ہوئے۔ پروفیسر مجیب کو ترگنیف کی تحریروں میں روسی کسانوں اور غریبوں کے دکھ نظر آتے ہیں اور وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کا شمار دنیا کے عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ دستوفسکی کے بارے میں رائے دیتے ہیں کہ " اس کی تحریروں کا شمار ان الہامی کتابوں میں ہونا چاہیے جنھوں نے ایک قوم کے جاں بہ لب عقیدوں اور حوصلوں میں جان ڈال کر ویرانوں کو آباد کیا ہے اور ایک نئی دنیا تعمیرکی ہے۔"
سالتی کوف، یسکوف کے بعد وہ ٹالسٹائی کی ادبی زندگی احاطہ کرتے ہیں۔ انھوں نے ٹالسٹائی کی ابتدائی زندگی، اس کی تحریروں اور قفقازکے سفر کا نقشہ کھینچا ہے، پھر وہ اس کے حب وطن کا ذکر کرتے ہیں جب انگلستان، فرانس اور ترکوں کے کریمیا پر حملے کا سن کر وہ بے قرار ہو جاتا ہے اور کسی جاں باز کی طرح داد شجاعت دیتا ہے۔
وہ ٹالسٹائی کے ناول "جنگ اور امن" کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ ناول ہے جس نے ٹالسٹائی کو دنیا کے عظیم ادیبوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔"جنگ اور امن" اگر ایک وسیع وعریض کینوس پر پھیلا ہوا ناول ہے تو اس کے بعد "اینا کرنینا"ہے جو چند انسانوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے اور پڑھنے والوں کو رلا دیتا ہے۔ اس ناول نے روس اور یورپ میں ایک اخلاقی بحث چھیڑ دی جو سالہا سال جاری رہی۔ وہ اس کی دیگر تحریروں اور اس کی ذاتی زندگی کے المناک انجام کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
پروفیسر مجیب کا کہنا ہے کہ عوام کی کہانیوں میں سے زیادہ تر ٹالسٹائی نے کسانوں اور داستان گووں سے سنیں۔ چند اس خاص طرز میں کہ اس کی اپنی تصنیف کہی جا سکتی ہیں۔ ان سب میں ایسی سادگی اور ہمواری ہے اور خالص ادبی خوبیوں سے ایسا تغافل برتا گیا ہے کہ وہ ادب سے ایک برتر چیز بن گئی ہیں۔
ان میں نصیحت بھی کی گئی ہے تو ایسے پیرائے میں اور ایسی ظاہری بے پروائی سے کہ وہی بات جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ادب لطیف میں کھیتی نہیں، یہاں زیور کا نگینہ اور حسن کی خاص ادا بن گئی ہے۔"آدمی کو کتنی زمین چاہیے؟" اور "تین بوڑھے" تو ایسے قصے ہیں جنھیں ایک بار پڑھ لیجیے تو ساری عمر یاد رہیں اور اس وجہ سے یاد رہیں کہ ان میں جو نصیحت کی گئی ہے وہ خود بہ خود دل پر نقش ہو جاتی ہیں۔"آقا اور غلام" اسی رنگ میں ڈوبا ہوا افسانہ ہے، اگرچہ اس میں ادبی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔"
کتاب کا اختتام چیخوف اور گورکی کے ادبی کارناموں پر ہوتا ہے۔ ابتدا میں ہی انھوں نے یہ بیان کر دیا تھا کہ وہ انقلاب کے بعد کے روسی ادب کے خدوخال نہیں بیان کریں گے، اس لیے ہم سوویت یونین کے نئے ادیبوں کا تذکرہ نہ ہونے کے بارے میں ان سے شکایت نہیں کر سکتے۔ انھوں نے روسی کلاسیکی ادب اور ادیبوں کا نقشہ جس دل سوز انداز اور ژرف نگاہی سے کھینچا ہے، وہ کاغذ پر دھڑکتا اور سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔