یہ خزاں کے دن ہیں، پت جھڑکا موسم۔ ان دنوں ہمارے بہت سے بزرگ اپنا اپنا سفر مکمل کرکے رخصت ہورہے ہیں۔ بی ایم کٹی گئے اور ان کے فوراً بعد طفیل عباس صاحب نے رخت سفر باندھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان کے بارے میں خواب دیکھتے ہوئے آئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر برصغیر تقسیم ہو رہا ہے اور ایک نیا ملک وجود میں آرہا ہے تو یقیناً کوئی بڑا تجربہ ہونے والا ہے۔
طفیل عباس صاحب کی زندگی میں جھانک کر دیکھیے تو وہ بچہ نظر آتا ہے جو دس برس کی عمر میں یتیم ہوگیا اور جس کی بیوہ ماں اور دادی نے کٹھن دن اور سیاہ راتیں گزارکر اسے اس قابل کیا کہ وہ میٹرک کا امتحان پاس کرے اور پھر اپنی گزرگزران کے لیے کھیتی باڑی کی جو تھوڑی سی زمین تھی، دادی نے اسے بیچ کر پوتے کو بی اے پاس کرایا اور جیسا کہ ان دنوں کا چلن تھا پوتا آزادی کا جشن دیکھنے کراچی کے لیے روانہ ہوگیا۔
یہاں سے اس نوجوان کی کہانی شروع ہوتی ہے، جوٹریڈ یونین سے وابستہ ہوا اور جب 92 برس کی عمر میں زندگی کی کتاب تہہ کی تو پاکستان کی مزدور تحریک کا ایک اہم رہنما تھا۔
اپنی زندگی کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ مزور تحریک اور ترقی پسند ادب کا حوالہ دیتے ہوئے جولیس فیوچک کو یاد کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے چند جملے ذہن میں ایسے سمائے کہ پھر زندگی ان ہی کے سائے میں گزری۔
یہ چیکوسلواکیہ کے ایک بہادرکی داستان ہے جو وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کا سیکریٹری تھا۔ جرمن فوجیوں نے دوسری عالمی جنگ میں اس کے ملک پر قبضہ کیا اور حریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرکے بہت سے حریت پسندوں کو مار دیا۔ جو بچ گئے انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ فیوچک بھی جیل میں تھاجہاں جرمن فوجیوں نے اسے اس قدر اذیت دی کہ اس کی انگلیوں کی پوروں تک سے خون بہتا تھا۔ اس نے سگریٹ کے کاغذوں کے ٹکڑوں پر یہ کتاب لکھی۔ جرمن سپاہی جو پہرے پر تھا، وہ اس سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے تمام ساتھی مار دیے گئے ہیں اور باقی لوگ تمہیں چھوڑکر چلے گئے ہیں؟
جولیس نے جواب دیا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ جرمن سپاہی پھر سوال کرتا ہے کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل تم بھی مار دیے جائو گے؟ وہ بہادر جواب دیتا ہے ہاں مجھے معلوم ہے کہ کل میں بھی مار دیا جائوں گا۔ مگر مجھے خوشی ہے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والا کل جو مزدوروں اورکسانوں کا ہے، اس میں میرا حصہ ہوگا۔ جولیس فیوچک کے یہ الفاظ آج بھی میرے ذہن میں گونجتے رہتے ہیں۔ ماضی میں جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہوا۔ یہاں تک کہ زندگی اور موت کے دوراہے پر بھی یہ الفاظ میری رہنمائی کرتے رہے۔ یہ الفاظ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بلاشبہ مشعل راہ ہیں اور انھی جیسی چھوٹی چھوٹی چنگاریوں نے مجھے جینے کا طریقہ سکھایا۔
طفیل صاحب نے 1948 سے مزدور تحریک میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس سفر میں ہماری ملاقات حسن ناصر شہید کے علاوہ دوسرے بڑے کمیونسٹ رہنمائوں سے ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ وہ پاکستان کے ابتدائی کمیونسٹ رہنمائوں میں سے تھے۔ جیل گئے، سختیاں سہیں۔ انھوں نے ایک ترقی پسند رسالہ "عوامی منشور" نکالا جسے اپنے ہم خیال بھائی ذکی عباس کے ساتھ مل کرکئی دہائیوں تک چلاتے رہے۔ قومی مزدور محاذ کے سربراہ رہے اور اپنی سی کوشش ان کی یہی رہی کہ تمام ترقی پسند دوستوں کو جوڑ کر رکھیں، لیکن سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان اختلافات کے سبب یہ ممکن نہ ہوسکا۔ یہ ضرور ہوا کہ ان ہی دنوں ذوالفقارعلی بھٹو جو ایک روشن خیال سیاسی رہنما کے طور پر ابھر رہے تھے، ان سے طفیل صاحب کی قربت بڑھی اور پھر آخرکار ان ہی سے دوری ہوئی۔
طفیل صاحب نے اپنی زندگی اور پاکستان میں مزدور تحریک کی تاریخ " صبح کی لگن " کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں 1947 سے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آخری دنوں تک حالات بہت تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ ان واقعات کے جائزے کا طفیل صاحب کا اپنا زاویہ نظر ہے۔ جس سے کچھ لوگوں کو اتفاق اورکچھ کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ پاکستان کی سیاسی اور مزدور تحریک کا ایک اہم باب ہے۔
ان کی زندگی میں نعیمہ عباس کی جس قدر اہمیت رہی ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے طفیل صاحب کی نیم مفلوج زندگی کو نہایت سلیقے سے بسرکراتے دیکھا ہے۔ نعیمہ صاحبہ نے ان کے بھائی ذکی عباس کے بعد "منشور" کی ادارت کی، اسے پریس بھیجتی رہیں۔ انھوں نے کتنی محنت مشقت سے 3 بیٹیوں اور ایک بیٹے کی پرورش کی، یہ کوئی ان کے دل سے پوچھے۔ ان کی بیٹی اسما عباس ہو یا دوسری بیٹیاں اور بیٹا سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہوئے۔ طفیل عباس کی دادی نے اپنی زمین بیچ کر انھیں بی اے پاس کرایا تھا۔ نعیمہ عباس نے اپنی آنکھوں کا تیل جلا کر اور اپنی تعلیم کے وسیلے سے طفیل صاحب کو گھرکے جھمیلوں سے محفوظ رکھا۔
اظہر عباس مرحوم، شوکت چوہدری، سجاد، کامران عباس اورکئی دوسرے آخر وقت تک ان کا ساتھ نبھاتے رہے۔ ان کے بارے میں ایک گواہی ان کے بھتیجے اختر عباس کی ہے جس نے لکھا کہ طفیل عباس صاحب سیاسی اور سماجی شخصیات کی ایک ایسی گزشتہ نسل، بلکہ ان میں بھی منفرد ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ اپنی ذات، اپنے جذبات اور اپنے مفادات کے مقابلے میں معاشرے کے مفاد اور ارتقا کو ترجیح دیتے ہیں۔ عجیب سر پھرے لوگ ہیں یہ بھی۔ ذاتی طور پر تو یہ انتہائی حساس اور جذباتی ہوتے ہیں مگر ان کی تحریروگفتگو، ان کے اعمال اور ان کی تمام تر زندگی کا مرکز ذات کی تسکین کے بجائے عوام کی بہتری ہوتی ہے۔
"صبح کی لگن" کے بارے میں وہ لکھتا ہے۔ یہ کتاب جہاں ایک سطح پر ایک باکمال یونین مزدور تحریک، طبقاتی جدوجہد، ایک بوسیدہ ظالمانہ اور ایک بدقسمت قوم کی تاریخ ہے تو ایک اور سطح پہ یہ ایک شخص اور بین السطور ایک خاندان کی بھی کہانی ہے۔ اگر آپ روانی میں اس دوسری کہانی کو مکمل طور پر Miss کر جائیں تو شاید اس میں آپ کی کوئی خطا نہ ہو۔ پوری کتاب میں کہیں نہیں لکھا کہ رات گئے گھر کے دروازہ پہ نا مہذب سی دستک سن کر دل کس طرح دہل جاتا ہے۔ یا یہ کہ پاکستانی تھانوں، جیلوں اور CID کے پرتعفن اذیت خانوں میں بارہا تمام تر ذہنی اور جسمانی صعوبتوں کے باوجود مایوسی سے کیونکر مقابلہ کیا جاتا ہے یا یہ کہ جب طفیل صاحب جیل میں ہوتے تھے توگھر والوں کو تلاش معاش کے علاوہ ان کی زندگی اور خیریت کا سراغ لگانے کے لیے کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ یا یہ کہ جب سالہا سال کی رفاقت کے بعد قریب ترین دوست بھی دغا دے جاتے ہیں تو دل یہ چوٹ کس طرح سہہ پاتا ہے۔
انتہائی کمسنی کے باوجود مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہیں جب ہمیں پتہ چلا کہ میرے والد کا نام بھی MLR-52 کے تحت پی آئی اے کی نوکری سے برطرف کیے جانے والوں میں شامل ہے۔ اس وقت مجھے تو یہ سمجھ نہیں تھی کہ ہوا کیا ہے۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے ایک خاموش سا طوفان ہے۔ جس کی وحشت گھرکے ہر طرف کی آنکھوں میں سما گئی ہے۔ بیروزگاری واقعی ایک ایسا ہی طوفان ہے۔ جس سے مقابلہ کرتے کرتے انسان نفسیاتی جسمانی اور معاشی طورپر شل ہوکر رہ جاتا ہے میرے والد اور خصوصاً میری والدہ کی انتھک محنت اور جدوجہد نہ ہوتی تو میں اور میرا بھائی آج کسی قابل نہ ہوتے۔ کتنی کمال بات ہے کہ ایک آمر کا ہمارے جیسے سیکڑوں کنبوں کو دیا گیا یہ پرُتشدد تحفہ ہمیں آخرکار طبقاتی شعور بخشنے کا باعث بنا۔
طفیل صاحب کی رخصت کے بعد یہ ان کے جاں نثار دبئی سے آنے والے کامران عباس اور ان کے ساتھیوں کی محبت تھی کہ ان کے ریفرنس میں آرٹس کونسل کا ہال بھرا ہوا تھا اور میرے لیے یہ انتہائی مسرت کا سبب تھا کہ اس میں پرما عباس نے پہلی مرتبہ تقریرکی۔