Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Theek 100 Saal Pehle

    Theek 100 Saal Pehle

    یہ برطانوی عہد کا ہندوستان ہے۔ 18 مئی 1918کو ایک جہازبمبئی کی بندرگاہ پر لنگر اندازہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی جنگ عظیم ختم ہورہی تھی، بمبئی کی بندرگاہ بہت مصروف تھی جہاں سپاہیوں اور سازوسامان کی آمدورفت اپنے عروج پر تھی۔

    ہندوستان کے لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بہت جلد ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے، وہ خوش تھے کہ جنگ عظیم ختم ہو رہی ہے اور ان کے پیارے جو برطانوی مفادات کو بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے تھے، اب گھر واپس لوٹنے والے ہیں۔ تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ بحری جہاز مغربی محاذ کی خندقوں سے اپنے ساتھ ایک وائرس لایا تھا۔ یہ وائرس آنے والے دنوں میں یورپی ممالک کے کروڑوں انسانوں کو ہلاک کرنے والا تھا۔

    بحری جہاز 18 مئی 1918کو لنگر انداز ہوا تھا، 10 جون کو 7 سپاہی انفلوائنزا کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے، ان سب کی تعیناتی بندرگاہ پر تھی اور ان میں سے ایک سپاہی اس گودی پر تعینات تھا جہاں اس جہاز سے سامان اتارا جارہا تھا۔ بہت جلد معلوم ہوگیا کہ ان سپاہیوں کو ایک متعدی بیماری لاحق تھی جسے بعد ازاں "اسپینش فلو" کا نام دیا گیا۔

    جب تک یہ خبر عام ہوتی ہزاروں افراد ریل گاڑیوں سے سفر کرکے ہندوستان کے مختلف شہروں کوکوچ کرچکے تھے۔ یہ وبا جو ایک وائرس کے ذریعے پھیلی تھی دو سال تک برقرار رہی۔ 1920 میں اس کا زور ٹوٹا لیکن اس وقت تک یہ وبا صرف ہندوستان میں تقریباً ایک کروڑ اسی لاکھ سے زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلا چکی تھی۔ کسی بھی ملک میں ہونے والی یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔

    آج ہمیں کورونا کی عالمی وبا کا سامنا ہے لیکن اب سے ٹھیک 100سال پہلے اسی طرح کے کسی وائرس سے جو وبا پھیلی تھی اس کی دنیا نے آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھاری قیمت ادا کی تھی۔ اسپینش فلو کے نام سے منسوب یہ وبا 1918 میں شروع ہوئی اور دسمبر1920کو ختم ہوئی۔ کورونا وائرس کی وبا دسمبر 2019 کو شروع ہوئی ہے اور اس کا خاتمہ نہ جانے کب ہوگا۔ اسپینش فلو سے 50 کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے یہ تعداد اس وقت دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی تھی۔

    ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی اور صحت کے جدید نظام کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ دنیا کی 7 ارب سے زیادہ کی آبادی میں کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونیو الوں کی تعداد ابھی ایک لاکھ تک ہی پہنچی ہے۔ ایک صدی پہلے پھیلنے والی اس عالمی وبا سے محتاط اندازوں کے مطابق 5 کروڑ جب کہ عام اندازوں کے مطابق 10 کروڑ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز عالمی وبا تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ کورونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی نہیں پھیلائے گی۔

    سوسال پہلے جب اسپینش فلو کی وبا پھیلی تھی تو اس وقت دنیا پر نوآبادیاتی طاقتوں کا قبضہ تھا اور منڈیوں کے حصول کے لیے یہ ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگوں میں مصروف تھے۔ یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم کے باعث خبروں پر سنسر شپ عائد تھی۔ لہٰذا یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔ اس فلو کا آغاز اگرچہ امریکا سے ہوا تھا لیکن اس وبا سے اسپین سب سے زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا۔ چونکہ وہاں کابادشاہ الفانسو اس مرض میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ وبا اسپینش کے نام سے مشہور ہوگئی۔

    دو برسوں کے دوران اس وبا کی تین بڑی لہریں آئیں جس میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت 30، 20 اور 40 سال کے عمر کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ کورونا وائرس سے کس عمر کے لوگ زیادہ ہلاک ہورہے ہیں اس کے بارے میں اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم، بڑی عمر کے ایسے افراد جو پہلے سے ہی ایک یا ایک سے زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہیں اور جن میں قوت مدافعت کی کمی ہے۔ ان کے لیے یہ وبا ہلاکت خیز ثابت ہورہی ہے۔

    اسپینش فلو سے ڈاکٹروں اور نرسوں کی بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی تھی، کورونا وائرس میں بھی یہ صورتحال پائی جاتی ہے۔ امریکا جو اس وقت کورونا وائرس کا عالمی مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ اسپینش فلو سے بھی شدید متاثر ہوا تھا۔ اور اس وبا سے 6، 75، 000 امریکی اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ مردوں کو دفنانے کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا اور مرنے والوں کو نذر آتش کرنا پڑا۔ اس طرح کی سنگین صورتحال وہاں آج بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ پرندوں اور جانوروں کے ذریعے پیدا ہوا ہے۔ یہ بات اسپینش فلو کے وائرس کے بارے میں کہی گئی تھی۔

    محققین کا کہنا ہے یہ وائرس پرندوں سے نکل کر سوروں میں چلا گیا جہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہوگیا تھا۔ چونکہ یہ پہلی جنگ عظیم کا آخری زمانہ تھا اسپتال اور کیمپ ہزاروں سپاہیوں سے بھرے ہوئے تھے لہٰذا یہ وائرس بڑی تیزی سے لوگوں کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہوتا چلا گیا۔ اسپینش فلو اس لیے بھی زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا تھا کیونکہ اس وقت اینٹی بائیوٹک دوا ایجاز نہیں ہوئی تھی۔ ایک حقیقی اینٹی بائیوٹک دوا، پنسلین 1928 میں سامنے آئی جس کی ایجاد کا سہرا سینٹ میری اسپتال میں علم جرثومیات کے استاد پروفیسر الیگزینڈر فلیمنگ کے سرجاتا ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ کورونا وائرس کی موجودہ وبا کے دور میں طبی تحقیق بہت آگے بڑھ چکی ہے اور ایک سال سے پہلے اس مرض کی ویکسین استعمال میں آنے لگے گی۔

    بات کا آغاز غلام ہندوستان میں اسپینش فلو کی آمد اور تباہ کاری کے ذکر سے ہوا تھا۔ اس فلو نے اس وقت کے ہندوستان کی پانچ فیصد آبادی کو موت سے ہم کنار کیا تھا۔ 1918 میں سینٹری کمشنر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد اس وقت زیادہ تھی کہ ان کا کریا کرم کرنے کے لیے لکڑیاں کم پڑ گئی تھیں جس کی وجہ سے نہ صرف دریائے گنگا بلکہ ملک کے دوسرے دریا بھی لاشوں سے لبالب بھر گئے، فلو کی وبا کے ساتھ خشک سالی بھی ہوگئی اور ملک کے کئی حصوں میں غریب اور غذائیت سے محروم انسان ہلاک ہونے لگے۔

    نو آبادیاتی تسلط کی بے رحمی دیکھیے کہ ہمارے لوگ وبا اور قحط سے مررہے تھے لیکن برطانیہ، ہندوستان میں پیدا ہونے والا غلہ اور ڈاکٹر محاذ جنگ پر بھیج رہا تھا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے مرکزی کردار مہاتما گاندھی بھی اسپینش فلو کا شکار ہوگئے تھے، بعض محققین کا کہنا ہے کہ اگر مہاتما گاندھی اس وبا کا شکار ہوکر ختم ہوگئے ہوتے تو شاید برصغیر کی آزادی کی تحریک کوئی اور رخ اختیار کرلیتی۔

    نو آبادیاتی ہندوستان میں اس وقت بڑے پیمانے پرجو ہلاکتیں ہوئیں پہلی جنگ عظیم میں برطانوی استعمار نے اپنی نوآبادیاتی کے انسانوں و مادی وسائل کو جس بے دردی سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں محکوم عوام کے اندر غیر ملکی آقائوں کے خلاف بدترین غم و غصہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ متحرک اور منظم ہوگئے پہلی جنگ عظیم کے ساتھ اسپینش فلو سے یورپ میں جو تباہی پھیلی اس نے نوآبادیاتی طاقتوں کو مزید کمزور کردیا جس کے نتیجے میں قومی آزادی کی تحریکیں مضبوط ہونے لگیں۔

    اسپینش فلو کی طرح کورونا وائرس کی وبا بھی دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائے گی۔ سب سے اہم سوال یہ اٹھے گا کہ کیا عالمگیریت محض غیر معمولی منافع خوری کا نام ہے یا اس میں انسان کی فلاح و بہبود کا بھی کوئی عنصر موجود ہے۔ کیا ضروری نہیں ہوگیا کہ عالمگیریت کے مظہر کو انسان دوست بنایا جائے؟

    About Zahida Hina

    Zahida Hina

    Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

    Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

    Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.