Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Turkmenistan Ke Baloch

Turkmenistan Ke Baloch

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ وزیر اعلیٰ نہیں تھے۔ ایک بالاقامت، سادہ مزاج اور خوش اخلاق بلوچ۔ نیشنل پارٹی کے نمایندے کے طور پر انھوں نے ہم لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیش کا سفرکیا اور ڈھاکا میں "پوروبانی ہوٹل" میں ایک ساتھ ٹھہرے۔

صبح کا ناشتہ مالک صاحب، پائلرکے کرامت علی اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ ہوتا اور عموماً ہم اس بات پر غم کھاتے کہ اگر ہمارے مقتدر افراد اور ادارے نے مشرقی بنگال کے لوگوں پر ستم نہ توڑے ہوتے تو آج بھی یہ خطہ ہمارے ساتھ ہوتا اور ہم اپنے بنگالی دوستوں کے سامنے شرمسار نہ ہوتے۔

ہم جب واپس آئے تو گاہے ماہے عبدالمالک صاحب سے ملاقات ہوتی رہی۔ اچانک معلوم ہوا کہ وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنا دیے گئے ہیں، جی خوش ہوا کہ ایک عوام دوست سیاستدان جو بلوچوں اور پشتونوں کے دکھ درد سمجھتا ہے، وہ صوبے کے سفید و سیاہ کا نگران ہوگا۔ ان سے بہت سی توقعات تھیں، یہ بھی دیکھا گیا کہ وزارت اعلیٰ کے عہدے نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا ہے اور وہ اسی طرح سادگی اور انکسار سے ملتے ہیں۔

پھر وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے، کبھی کبھار کسی کانفرنس یا سیمینار میں آمنا سامنا ہوا اور ہم مسکرا کر ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے رہے۔ چند دنوں پہلے اچانک ان کا فون آیا کہ ہمارے دوست یار محمد بادینی نے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس پر چند سطریں لکھ دیں۔ مالک صاحب کی بات کیسے ٹالی جا سکتی تھی، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ وہ کتاب مجھے بھجوا دیں۔ یوں میں "ترکمانستان کے بلوچ" نامی کتاب سے روشناس ہوئی۔ میرے لیے یہ قدرے حیرت کی بات تھی کہ بلوچ اتنی بڑی تعداد میں ترکمانستان میں آباد ہیں کہ یار محمد بادینی نے ان کے حالات پر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ مجھے اس بات سے بھی دلچسپی ہوئی کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ایک آزاد مملکت کے طور پر ترکمانستان کس خدوخال کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا۔

یار محمد بادینی نے یہ کتاب 1998 کے سفر کے بعد لکھی اور اس میں انھوں نے دلچسپ معلومات اکٹھی کی ہیں۔ 1998 اور 2020 کے درمیان لگ بھگ 22 برس کا فصل ہے۔ یہ ایک لمبی مدت ہے اور اس دوران ترکمانستان کے زمین وآسمان بھی بدلے گئے۔ اسی لیے میں نے اس علاقے کے بلوچوں سے پہلے ترکمانستان کے بارے میں جاننا چاہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکمانستان میں آمریت کا پرچم بلند ہے۔ فریڈم ہاؤس نے ترکمانستان کو شمالی کوریا، سوڈان اور شام جیسی آمریتوں کی صف میں رکھا ہے۔ 2016 میں فریڈم ہاؤس نے بولنے، صحافت اور مذہبی آزادی کے حوالے سے فہرست میں آخری نمبر پر رکھا تھا، ترکمانستان کی زمین گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

ان ذخائر سے ہونے والی آمدنی کو اس کے پہلے صدر نیازوف نے ذاتی تشہیر اور خفیہ ایجنسیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے لیے استعمال کیا۔ قوم پرستی کو بڑھاوا دینے کے لیے روسی زبان و ادب کو بہ یک قلم موقوف کر دیا گیا۔ ثانوی تعلیم کی مدت میں ایک سال کی کمی کی گئی جس سے معیار تعلیم پر برا اثر پڑا۔ سوویت یونین کے زمانے میں تعلیم اور لائبریریوں کے پھیلاؤ پر بہت زیادہ زور تھا۔ نیازوف نے پہلے تو لائبریریوں میں سے وہ کتابیں خارج کرائیں جن میں سوویت یونین اور اس کے لیڈروں کا ذکر تھا۔ پھر آہستہ آہستہ بہت سی لائبریریاں بند کر دی گئیں اور نیازوف کی کتاب "رخ نامہ" پڑھنا اور اسے یادکرنا لازمی ہوگیا۔ یہ نیازوف کے خیالات کا مجموعہ تھا جس میں تاریخ، ثقافت اور اخلاقیات کے بارے میں بات کی گئی تھی۔

عوام کے سامنے نیازوف کو ان داتا بنا کر پیش کیا گیا۔ پانی، گیس اور بجلی کے علاوہ ڈبل روٹی، پیٹرول اورذرایع آمدو رفت کے کرایوں میں حکومت زر تلافی دینے لگی۔ عام لوگوں کو جہاں یہ سہولتیں ملیں، وہیں ان پر تحریر و تقریر کی پابندیاں لگیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ترکمانستان میں لوگوں کے آنے یا باہر جانے پرکڑی پابندیاں لگیں، اسی لیے مجھے عبدالمالک صاحب کی بھیجی ہوئی کتاب " ترکمانستان کے بلوچ" زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی۔ ایک ایسے ملک میں سفرکرنا اور وہاں موجود بلوچوں کے حالات کاجائزہ لینایقیناً ایک مشکل کام رہا ہوگا۔

یارمحمد بادینی نے ترکمانستانی بلوچوں کا جائزہ لیتے ہوئے سابق سوویت یونین کی اس فیاضی اور دریا دلی کو یاد کیا ہے جس کے سبب اس ریاست میں اب تک خواندگی کی شرح شاندار ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی اورکالج میں داخلہ سب کے لیے عام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوویت نظام کے تحت ساڑھے آٹھ لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اگر کوئی بچہ تعلیم سے محروم رہ جائے تو یہ ذمے داری اس کے والدین کی تھی اور انھیں سزا دی جاتی تھی۔

وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے بعد ترکمانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ سابق سوویت یونین کے زیر اثر دوسرے وسط ایشیائی ملکوں میں شرح خواندگی ناقابل یقین حد تک بلند تھی۔ اب لوگوں کو وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہاں پاکستان ایسے ملک سے کہیں زیادہ تعلیم کی شرح ہے۔ انھوں نے ترکمانستان میں رہنے والی بلوچ خواتین کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

ترکمانستان میں بلوچ خواتین اپنی زمینوں پر خود کام کرتی ہیں۔ زمین کو ہموار کرنے کے ساتھ اس پر کاشت بھی کرتی ہیں۔ موسم اور وقت کے مطابق اپنی زمینوں پر مختلف فصلیں اگاتی ہیں اور وہ کٹائی کے دوران مردوں کے شانہ بشانہ خدمات سر انجام دیتی ہیں۔

ترکمانستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اورکپاس بھی سب سے زیادہ اس علاقے میں ہوتی ہے جہاں زیادہ تر بلوچ آباد ہیں۔ ترکمانستان میں کپاس کی سب سے بڑی فیکٹری بھی بلوچوں کے علاقے میں ہے۔ بلوچ خواتین کپاس کی کاشت اور اس کی کٹائی کے دوران بھرپور خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ کپاس کی صفائی کے دوران بلوچ خواتین چھوٹے بڑے کارخانوں میں کام کرتی ہیں اور اچھا خاصا پیسہ کماتی ہیں۔ چونکہ مالداری کا پیشہ بلوچوں میں بہت پرانا ہے اور بلوچ مالداری کو اپنے لیے بہت ضروری سمجھتے ہیں مالداری اور زمینداری سے بلوچوں کوبے حد محبت ہے اور یہ محبت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔

ترکمانستان کے بلوچ بھیڑ، بکریاں، گائے اور بھینسیں بڑی تعداد میں پالتے ہیں۔ گھروں کے اندر ان تمام مال مویشیوں کی دیکھ بھال بلوچ خواتین کرتی ہیں اور ساتھ ہی ان سے گوشت، دودھ، دہی اور مکھن حاصل کرتی ہیں اور یہ تمام چیزیں اپنے ہمسایوں میں مفت تقسیم کرتی ہیں۔ ان میں بلوچ اور غیر بلوچ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ان مال مویشیوں کے اون سے بلوچ خواتین اپنے گھروں کے لیے قالین بناتی ہیں۔ جو اپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کی وجہ سے ترکمانستان میں بہت مشہور ہیں جن کو بلوچی زبان میں کونٹ کہتے ہیں۔

دوسری قوموں کی طرح بلوچ قوم بھی بالشویک انقلاب سے پہلے ترکمانستان میں آباد تھی اور بلوچوں نے تقریباً ستر سال سوویت سسٹم کے تحت گزارے۔ ان ستر برسوں میں ترکمانستان کے بلوچوں نے جس طرح ترقی کی یہ اس نظام کی ایک زندہ مثال ہے۔ سوویت دور میں ترکمانستان کے تمام بلوچ زندگی کی تمام بنیادی سہولیات رکھنے کے ساتھ معاشی طور پر بھی مستحکم تھے۔

ان میں کوئی امیر غریب کا فرق نہیں تھا۔ وہ اپنے دین اسلام کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی بلوچ ثقافت، رسم و رواج اور زبان کو بھی زندہ رکھتے۔ یہ تمام کریڈیٹ سوویت سسٹم کو جاتا ہے کہ اس نے سوویت یونین میں آباد تمام قوموں کی ثقافت، زبان اور مذہب کو زندہ رکھنے میں خاص کردار ادا کیا تاکہ کوئی قو م آبادی کے لحاظ سے چھوٹی ہو یا بڑی اپنا مذہب، زبان، ثقافت اور رسم ورواج کو فراموش نہ کرے۔ اس سلسلے میں ہفتہ میں دو دن ترکمان کے ریڈیو اسٹیشن سے بلوچی پروگرام نشتر ہوتے تھے۔ ان پروگراموں میں بلوچی موسیقی اور زبان و ادب سے متعلق خبریں نشر ہوتی تھیں۔

بادینی صاحب نے ترکمانستان میں بلوچی تہذیب و ثقافت، بلوچی ادب اور موسیقی کا بھی ذکر کیا ہے انھوں نے ترکمانستان میں رہنے والے نام دار بلوچوں کا بہ طور خاص ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی اصل سے جدا ہو جانے کے باوجود ان لوگوں نے اپنی جڑوں سے رشتہ نہیں توڑا ہے اور اپنے لوگوں کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔

بادینی صاحب نے یہ سفر نامہ لکھ کر بلوچ روایات کو زندہ رکھنے کی نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ ہمیں اس بات کا بھی احساس دلایا ہے کہ بلوچ کہیں چلے جائیں اپنی اصل سے ناتا نہیں توڑتے۔ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے ہیں اور درو دراز بکھرے ہوئے بلوچوں کو انھوں نے ایک لڑی میں پرونے کی قابل قدرکوشش کی ہے۔ یہ کوشش انھیں مبارک ہو اور عبدالمالک صاحب کو بھی جو اپنے اور دور دیس جاکر بسنے والے بلوچوں کے درمیان رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.