Thursday, 05 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Unhe Yaad Rakha Jaye

Unhe Yaad Rakha Jaye

23 مارچ کے حوالے سے یوں تو بہت کچھ لکھا اور بہت سی شخصیات کو یاد کیا جاسکتا ہے، لیکن اس موقع پر میں آج ایسی دو ہستیوں کا ذکر کرنا چاہوں گی، جنھوں نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا جنھیں ہم نے بڑی حد تک فراموش کر رکھا ہے۔

لیکن یہ زیادہ دکھ کا مقام ہے کہ ہماری نئی نسل کو ان دو عظیم شخصیات کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ آج نوجوانوں میں سیاسی شعور کی جو کمی نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ان سیاسی رہنماؤں کے بارے میں لاعلمی بھی ہے جو ہمارے لیے ایک مثال ہیں۔

پہلے میں بنگال کے ایک عظیم رہنما خواجہ ناظم الدین کو یاد کرنا چاہتی ہوں، جنھوں نے 12 برس کی عمر سے بنگال کی سیاست کو سمجھنا شروع کیا۔ 1906 میں یہ خواجہ ناظم الدین مرحوم کے سگے ماموں نواب سر سلیم اللہ تھے جن کے گھر پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس تاریخی اجتماع میں شرکت کے لیے سر سلیم اللہ نے اپنے چہیتے بھانجے خواجہ ناظم الدین کو علی گڑھ سے بلوایا جہاں وہ علی گڑھ بوائز اسکول کے طالب علم تھے۔

نواب محسن الملک انھیں علی گڑھ سے اپنے ساتھ ڈھاکا لے کر گئے اور اس بارہ سالہ بچے نے اپنی ننھیال میں برصغیر کی سیاست کے ایک نہایت اہم واقعہ کو رونما ہوتے ہوئے دیکھا۔

خواجہ ناظم الدین انگلستان سے اپنی تعلیم مکمل کرکے لوٹے تو انھیں وکالت شروع کرنی تھی لیکن وکالت کے بجائے انھوں نے سیاست کا میدان منتخب کیا اور کم عمری میں ہی ڈھاکا میونسپلٹی بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

اس کے بعد سے خواجہ صاحب کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا جو آخری سانس تک اس سیاست سے وابستہ رہا جس کی بنیادوں میں ہوس اقتدار کے بجائے اپنے لوگوں کی خدمت کا جذبہ تھا۔

خواجہ صاحب کی ساری سیاسی زندگی اپنی بجائے دوسروں کو آگے بڑھانے میں صرف ہوئی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جب وہ گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر وزیراعظم ہوئے تو اس وقت بھی ان کی خواہش تھی کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سردار عبدالرب نشتر سنبھالیں، اسی طرح جدوجہد آزادی کے دوران وہ کبھی حسین شہید سہروردی کے لیے اورکبھی دوسری اور تیسری صف کے مسلم لیگیوں کے لیے جگہ خالی کرتے رہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کی نئی نسل اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ یہ خواجہ صاحب کی اصولی سیاست کی انتہا تھی کہ انھوں نے 15 اگست 1947 کو جب مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا تو اس کے فوراً بعد انھوں نے صوبائی اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے زمینداری کے مکمل خاتمے کا بل پیش کیا۔

یہ اصول پہلے ہی طے پا چکا تھا لیکن مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس اصول کی پاسداری نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جاگیرداری کی دیمک پاکستان کو آج بھی کھوکھلا کررہی ہے۔ تاہم یہ بات حیران ضرور کرتی ہے کہ مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت نے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کے وزرائے اعلیٰ سے مغربی پاکستان میں زمینداری کے خاتمے کا بل پیش کرنے کے لیے اصرار کیوں نہیں کیا۔

مرحوم خواجہ ناظم الدین نے مشرقی پاکستان میں تنسیخ زمینداری کے اقدام سے بنگالی عوام پر جو احسان کیا، اس کا احساس آج شاید بنگلہ دیش کی نوجوان نسل کو نہ ہو لیکن تاریخ کے صفحوں میں یہ بات اصولی سیاست کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ خواجہ صاحب اور ان کا پورا خاندان جو نوابین ڈھاکا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

مشرقی بنگال کے بڑے جاگیرداروں میں تھا، خواجہ صاحب کی اصولی سیاست نے انھیں اور ان کے پورے خاندان کو آسمان سے زمین پر لاکھڑا کیا، یہ سب لوگ اپنی زمینوں اور جاگیروں سے محروم ہوئے اور عوام میں شامل ہوگئے۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کے بارے میں مغربی پاکستان کے کسی جاگیردار سیاستدان نے نہ سوچا اور نہ اس وقت کی اعلیٰ مسلم لیگی قیادت نے اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا۔

خواجہ صاحب کی وزارت عظمیٰ کی کہانی بھی نرالی ہے۔ وہ ایک اصول پرست مگر نرم مزاج اور شریف النفس انسان تھے۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور جاگیردار انھیں اپنے عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے چنانچہ اخباروں میں ان کے لیے کبھی " قائد قلت " اور کبھی " ہاضم الدین" کے توہین آمیز " القابات" لکھوائے گئے، کبھی ان کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامے کا مذاق اڑایا گیا۔

یہ سب کچھ پاکستان میں اس شخص کے ساتھ کیا گیا جس نے اگر مشرقی بنگال میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں نہ ڈالا ہوتا تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آسکتا تھا، جس نے 1915میں کیمبرج یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا، قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور برصغیر کی مسلم اشرافیہ میں جس کا خاندان نامی گرامی تھا۔

عوام کے منتخب نمایندے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو جس طرح ایک طالع آزما بیوروکریٹ گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا اور اس وقت کی مسلم لیگ نے جس سیاسی ابن الوقتی کا ثبوت دیا، وہ پاکستانی تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے اور وہیں سے پاکستانی سیاست میں جاگیردار اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کی کھلم کھلا سازشوں اور قبضے کا آغاز ہوتا ہے۔

ہم آج خواجہ ناظم الدین کو بھلا چکے ہیں، ہمیں بلوچستان کے میر غوث بخش بزنجو بھی یاد نہیں جو 45 سال تک مکران کے گورنر رہنے والے کے پوتے تھے، جن کے باپ کی ناوقت موت کے سبب جن کی ریاست کورٹ آف وارڈز میں گئی، انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کے اصرار پر غیر منقسم برصغیر میں علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک وسیع النظر اور روشن فکر انسان تھے اور انسانوں کو رنگ، نسل، علاقے، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر منقسم کرکے سیاست کرنے کے قائل نہ تھے۔

انھیں دوسرے بلوچ سیاستدانوں کی طرح پاکستان سے شکایات تھیں۔ وہ دو قومی نظریے کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اس کے باوجود پاکستان جب وجود میں آگیا تو مرکزی حکومت کی زیادتیوں کے باوجود انھوں نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور اس کی خوشحالی کے لیے کام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی منتخب حکومت برطرف کی، تب بھی انھوں نے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم نہیں چلائی۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستانی آئین کے مرتب کرنے والوں اور اسے متفقہ طور پر منظور کرانے والوں میں سے تھے۔

اتفاق اور مفاہمت کی اس سیاست کے صلے میں ان پر، عطاء اللہ مینگل، ولی خان اور دوسرے رہنماؤں پر " غداری " کا مقدمہ بنایا گیا۔ انھوں نے برٹش راج اور پاکستانی حکومتوں کی عنایتوں سے اپنی زندگی کا چوتھائی حصہ جیل میں گزارا۔ ریاستی ذرایع ابلاغ کے ذریعے اور سرکاری اشتہارات پر پلنے والے اخبارات کے صفحوں پر انھیں تخریب کار، غدار اور "وطن فروش" ثابت کیا گیا۔

بلوچستان کے نہتے اور بے گناہ شہریوں پر بمباری کی گئی۔ بہت سے بلوچ سردار ملک چھوڑ گئے لیکن میر غوث بخش بزنجو پاکستان میں رہے اور آخری سانس تک مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو جوڑ کر پاکستان میں بہتر تبدیلیوں کی کوشش کرتے رہے۔ وہ مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے سیاست کے اس حد تک قائل تھے کہ بہت سے لوگ آج بھی انھیں "بابائے مذاکرات" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

مرحوم غوث بخش بزنجو کا ایمان تھا کہ جمہوریت کا استحکام جمہوری قوتوں کے اتحاد میں مضمر ہے۔ ہمارے ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی عام انتخابات کے انعقاد کے بعد یہ فرض کرلیتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہوچکی ہے جب کہ جمہوری عمل کی بحالی اور جمہوریت کے استحکام کی طرف یہ محض پہلا قدم ہوتا ہے۔ اصل امتحان جمہوری جدوجہد کے ثمرات کو بچانا اور مستحکم کرنا ہوتا ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جمہوری قوتیں اس امتحان میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ ہر برسر اقتدار جمہوری حکومت، اپوزیشن کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے اور اقتدار میں نہ آنے والی جمہوری قوتیں ہر قیمت پر منتخب حکومت کو ختم کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔ اس باہمی لڑائی کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں اور عوام کی ساری جدوجہد رائیگاں چلی جاتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اسی نفاق کی بناء پر غوث بخش بزنجو تمام جمہوری قوتوں سے آخری سانس تک یہی کہتے رہے کہ انھیں پاکستان میں فوجی آمریتوں کے خلاف اور صرف جمہوریت کی بحالی کے لیے ہی جدوجہد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے بعد بھی آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی متحد اور منظم رہنا چاہیے، تب ہی پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال ہوسکے گی۔

پاکستان نے خواجہ ناظم الدین اور غوث بخش بزنجو ایسے رہنماؤں اور اصولی سیاست کرنے والوں کی قدر نہیں کی، اسی لیے پاکستان میں سچی جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ یہ بات پاکستانیوں کے سمجھنے کی ہے کہ اپنے رہنماؤں اور مدبروں کو نظر انداز کرکے وہ کبھی بھی سچی جمہوریت کو ملک میں رائج نہیں کرسکیں گے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.