Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Wazir e Azam Jacinda Ki Khushi

    Wazir e Azam Jacinda Ki Khushi

    وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے دنیا کو یہ خوش خبری سنائی کہ ان کے ملک میں کورونا وائرس کی منتقلی اور پھیلاؤ ختم ہوچکا ہے۔ اس اعلان سے چند گھنٹوں قبل نیوزی لینڈ کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ایشلے بلوم فیلڈ نے ایک بیان کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ کورونا میں مبتلا آخری مریض اسپتال سے رخصت ہوچکا ہے، انھوں نے یہ خوش آئند اطلاع بھی دی کہ گزرے ہوئے 17 دنوں کے دوران کورونا کا کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اس کٹھن سفر میں ہم نے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے، اس کے باوجود ہم کووڈ19- کی کڑی نگرانی کے عمل کوجاری رکھیں گے۔

    جیسنڈا آرڈرن کومبارک باد دی جانی چاہیے کہ دنیا کے 200 سے زائد ملکوں کی حکومتوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے ان کی حکومت کی کارکردگی سب سے شاندار رہی ہے اور انھوں نے دنیا کے ہر وزیراعظم اور صدرکو اس مشکل مقابلے میں اپنے سے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    وزیر اعظم آرڈرن خوشی سے سرشار تھیں انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کی حکومت نے لاک ڈاؤن کا جو چار سطحی نظام نافذ کیا تھا وہ اب اس کو کم کرکے سب سے کم ترین سطح یعنی لیول 1 پر لا رہی ہیں جس کے تحت اب عوامی اجتماعات پر سے تمام پابندیاں اٹھالی گئی ہیں، لازمی سماجی فاصلے کی پالیسی ختم کر دی گئی ہے البتہ بین الاقوامی سفرکے لیے نیوزی لینڈ کی سرحدیں اب بھی بند رہیں گی۔ نیوزی لینڈ کی حکومت یہ کارنامہ اس لیے سرانجام دے سکی کیونکہ اس نے اس وبا کے شروع ہوتے ہی قومی سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کرکے انتہائی ضروری خدمات کے علاوہ تمام معاشی سرگرمیوں کو بند کر دیا تھا۔

    اس لاک ڈاؤن کا آغاز مارچ میں ہوا تھا اور مئی کے مہینے سے اسے بتدریج ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور جون کے پہلے عشرے میں ملک سے لاک ڈاؤن پوری طرح سے ختم کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن جتنا بھی خوش ہوں کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب انھیں بتایا گیا کہ اب نیوزی لینڈ میں کورونا کا کوئی مریض نہیں ہے تو وہ خوشی سے بے قابو ہوکر ناچ اٹھیں۔

    39 سالہ وزیر اعظم کاکہنا تھا کہ جب میری دو سالہ بیٹی نے مجھے لاؤنج میں خوشی سے نہال رقص کرتے دیکھا تو وہ پہلے کچھ حیران پریشان سی ہوگئی لیکن پھر یہ جانے بغیرکہ میں کیوں رقصاں ہوں وہ بھی میرے ساتھ رقص کرنے لگی۔ ان کے بے ساختہ رقص کی ویڈیو وائرل ہوگئی، دنیا کے بہت سے ملکوں کے وزرائے اعظم نے انھیں اس شاندارکامیابی پر مبارکباد دی اور ان کی بصیرت کی دل کھول کر تعریف کی۔

    کورونا جیسے خطرناک چھوت کے مرض کو پھیلاؤ سے روکنے اور اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے لاک ڈاؤن کا جو بروقت اور کامیاب فیصلہ کیا، عالمی ادارہ صحت نے بھی اس کا بھرپور اعتراف کیا ہے۔ یہ وہی عالمی ادارہ صحت ہے جوچند دن پہلے ہمیں متنبہ کرچکا ہے کہ پاکستان میں کورونا پھیلنے کی رفتار بہت ہولناک ہے اور ملک اس وبا کے پھیلاؤکے حوالے سے دنیا کے دس سرفہرست ملکوں میں شامل ہوچکا ہے۔ مجھے جب یہ اطلاع ملی کہ نیوزی لینڈ نے کورونا کو شکست دے دی ہے تو دنیا کے تمام لوگوں کی طرح مجھے بھی بے پناہ مسرت ہوئی۔

    اس بات پر یقین پختہ ہوگیا کہ انسان عزم کرلے تو وہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔ کرہ ارض پر انسان کے زندہ رہنے کا راز اس کی دو بنیادی خوبیاں یا صلاحیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر طرح کے ماحول میں خود کو ڈھال لیتا ہے یعنی بدلے ہوئے حالات سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے اور اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی جستجوکرتا ہے اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹا دیتا ہے۔

    ذرا غور کریں طاعون، ہیضہ، چیچک، جذام، ملیریا اور فلو نے کروڑوں انسانوں کا ہلاک کیا۔ بستی کی بستیاں تاراج ہوگئیں، تہذیبوں کے گہوارے سطح زمین سے مٹ گئے لیکن انسان نے حوصلہ نہیں ہارا۔ ان بیماریوں کا کوئی علاج نہ تھا اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کبھی ان کا کوئی علاج دریافت بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی تو گزشتہ سو ڈیڑھ سوسال کی پیداوار ہے، جب تک جدید سائنس اور طب کا دور نہیں آیا تھا اس وقت تک انسان محض اپنے حوصلے اور عزم پر ان مہلک بیماریوں اوروباؤں کا مقابلہ کرتا تھا، اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری، یہ بیماریاں انسانوں کو اپنا نشانہ بناتی رہیں۔ وہ ان کا شکار ہوتا رہا لیکن ان کا مقابلہ بھی کرتا رہا۔

    نیوزی لینڈ سے بات کا آغاز ہوا تھا کہ اس ملک نے کورونا کو مار بھگایا ہے۔ یہ خبر ایسے وقت میں آئی جب دنیا کے زیادہ تر ملک اس وبا سے خود کو بچانے کی تگ و دو میں مصرف ہیں، پاکستان میں صورتحال زیادہ سنگین ہے جو اب دنیا کے ان سرفہرست ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں یہ وبا انتہائی مہلک شکل اختیارکرگئی ہے۔ اس تناظر میں نیوزی لینڈ سے آنے والی یہ خبر یقیناً بڑی خوش کن ثابت ہوئی ہے اور اس میں تمام ملکوں کے لیے یہ پیغام مضمر ہے کہ انسان اور ان کی منتخب کردہ حکومتیں اگر درست حکمت عملی اختیارکریں تو وہ کسی بھی مہلک وبا پر قابو پاسکتی ہیں خواہ اس کا کوئی علاج موجود نہ ہو اور نہ ہی اسے روکنے کی کوئی ویکسین ایجاد ہوئی ہو۔

    میں نے اپریل کے مہینے میں ایک کالم لکھا تھا جس میں اس امر کو اجاگر کیا گیا تھا کہ جن ملکوں کی وزرائے اعظم خواتین ہیں وہ ملک کورونا وبا کا زیادہ مؤثر انداز میں مقابلہ کررہے ہیں۔ اس حوالے سے انجیلا مرکل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے جرمنی کے لوگوں نے انھیں لگاتار چار مرتبہ اپنے ملک کی چانسلرکے لیے منتخب کیا ہے، روس کو یورپ میں شامل نہ کیا جائے تو جرمنی یورپ کا سب سے بڑا ملک قرار پائے گا، برطانیہ اوراٹلی سمیت یورپی ملکوں کو ووہان میں اس وائرس کے نمودار ہونے کے بعد تین ماہ کا وقت ملا تھا جس کا وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ان ملکوں کے برعکس جرمنی نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ انجیلا مرکل نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ لوگوں میں علامتوں کے نمودار ہونے کا انتظار نہ کیا جائے۔

    لہٰذا انھوں نے مختصر مدت کے اندر لاکھو ں ٹیسٹ مکمل کیے اور لاک ڈاؤن کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو روک دیا۔ اسی کالم میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس ملک کی وزیراعظم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ایک پرُخلوص سیاسی رہنما مشکل ترین فیصلے کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ مجھے بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں نے اپریل میں جیسنڈا آرڈرن سے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان پر وہ پوری اتری ہیں ہیں اور 8 جون کو لاک ڈاؤن ختم کرنے کی جو چھ شرائط مقررکی گئی ہیں وہ پوری کردی گئی ہیں جب کہ پاکستان کی جانب سے ان میں سے کسی ایک شرط کو پورا کیے بغیر لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا۔

    نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو ہماری جانب سے دلی مبارکباد۔ انھوں نے وہ کر دکھایا جو دوسرے وزرائے اعظم اور صدور اب تک نہیں کرسکے۔ ہماری بات چھوڑیے آپ نے جو کچھ کرکے یہ کامیابی حاصل کی ہے ہم تو اس کا بالکل الٹ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔

    About Zahida Hina

    Zahida Hina

    Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

    Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

    Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.