لکھنے کو کیا کچھ نہیں ہے۔ لاہور کے ادارۂ امراض قلب میں جو کچھ ہوا، مریضوں پر جو گزری وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ فرش پر کانچ بچھا ہوا، تیماردار اپنے اپنے مریضوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے۔ قہقہے لگاتے ہوئے وکیل ڈاکٹروں کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ان کا بائی پاس کریں گے، اسٹنٹ ڈالیں گے۔ یہ انھوں نے نہیں بتایا کہ اسٹنٹ کوریا کا ہو گا یا امریکا سے منگایا گیا ہو گا۔
طیش اور طوفان بدتمیزی کا آتش فشاں تھا جو پھٹ رہا تھا اور تمام اخلاقی اقدارکو بہا لے گیا تھا۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں سے آنے والے یہ نوجوان وکیل اپنی مائوں، نانیوں اور دادیوں سے اعلیٰ اخلاقی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے تھے، ان کہانیوں میں انھیں بتایا گیا تھا کہ احترام آدمیت کیا ہے۔ مریض کے کیا حقوق ہیں اور ان کے کیا فرائض۔ لیکن تمام حکایتوں اور کہانیوں کے کردار ان کے ذہن سے محو ہو چکے تھے اور وہ کانچ کے برتنوں کے دکان میں بپھرا ہوا بیل بن گئے تھے۔
ہم نے وکیلوں کے حقوق کی لڑائی شاہراہ دستور پر لڑی اور کامیاب ہوئے۔ نوجوان ڈاکٹر اپنے مطالبات کے ساتھ جب بھی مال روڈ پر بیٹھے لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ تو پھر یہ باہم دست و گریباں کیوں تھے؟
میں اس معاملے کو اپنے دوسرے قلم کاروں کے لیے چھوڑتی ہوں اور ملک کی سرحدوں سے نکل کر "دی ہیگ" کا رخ کرتی ہوں جہاں رنگون کی ہیروئن آنگ سان سوچی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا دفاع کر رہی ہیں۔ میں نے ان کے حق میں درجنوں کالم لکھے۔ برما کے پس منظر میں ایک افسانہ لکھا اور جمہوریت سے ان کی وابستگی کا بار بار ذکرکیا اور اب وہی آنگ سان سوچی اقتدار کی غلام گردشوں سے گزر کر ان ہی جرنیلوں کے شانہ بشانہ ہیں جنھوں نے انھیں ان ہی کے گھر میں نظر بند رکھا۔ میں نے اپنے افسانے " تقدیرکے زندانی " میں لکھا تھا۔
کیسا ظلم تھا کہ اس شہر میں وہ عورت رہتی تھی جو پچھلے بارہ برس سے قید تنہائی کاٹ رہی تھی۔ سوچی جس نے 88 میں لندن کی اپنی خوش و خرم اور پرُسکون زندگی تیاگ کر اپنے لوگوں کو بغاوت اور جدوجہد کا حوصلہ دیا۔ جس نے بار بار کہا تھا کہ خوف ایک مہذب انسان کی فطرت نہیں اور یہ بات صرف کہی نہیں تھی کر دکھائی تھی۔
وہ سالہا سال سے دنیا میں برما کی جمہوری جدوجہد کی ہیروئن کے طور پر پہچانی جاتی تھی۔ اس کے بے مثال عزم اور ارادے کے اعتراف میں اسے نوبیل اور سخاروف امن انعام دیا گیا تھا۔ اس نے اپنے لوگوں سے عہد وفا یوں نبھایا کہ لندن میں اس کا محبوب شوہر بستر مرگ پر تھا لیکن اس نے برما چھوڑنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ فوجی حکومت اسے دوبارہ کسی قیمت پر برما میں داخل نہیں ہونے دے گی۔ وہ مائیکل کے آخری دیدار سے محروم رہی۔ بارہ برس سے اس نے اپنے بیٹوں کو گلے نہیں لگایا تھا۔ وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی تھی جس نے برما کو برٹش راج سے نجات دلائی تھی لیکن اسے قتل کر دیا گیا اس وقت سوچی دو برس کی تھی۔
عرفان کو نئی دہلی کے قلب میں ایکڑوں پر پھیلی ہوئی کولونیل وضع کی وہ کوٹھی یاد آئی جو 24۔ اکبر روڈ کہلاتی تھی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے جب سوچی کی ماں کو ہندوستان کا سفیر بنا کر بھیجا تو پنڈت نہرو نے یہ کوٹھی برمی سفیر کی رہائش کے لیے منتخب کی تھی۔ 24 اکبر روڈ پر ہونے والی کئی دعوتوں میں پنڈت جی شریک ہوئے تھے۔ ان کے چہیتے نواسے راجیو اور سنجے اس کوٹھی میں سوچی کے ساتھ سائیکل چلاتے، شرارتیں کرتے، مہاتما گاندھی، ہندوستانی تحریک آزادی اور برما کے ادب جیسے موضوعات پر ان تینوں نے کتنی باتیں کی تھیں۔ سوچی اپنی ہندوستانی سہیلیوں کے ساتھ راجیو اور سنجے کو بھی پارٹی میں بلاتی اور ان سب کے لیے پیانو بجاتی، اس وقت کون جانتا تھا کہ تقدیر کے ان تین زندانیوں کے لیے کتنے کٹھن اور خوں رنگ دن آنے والے ہیں۔
اس وقت میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس عورت کو جسے نوبیل امن انعام مل چکا ہے اور جس کے احترام میں دوست اور دشمن سب ہی سر جھکاتے تھے۔ اس پر یہ وقت بھی آئے گا کہ وہ " دی ہیگ " میں اقدام متحدہ کی سب سے بڑی عدالت میں بطور ملزم کھڑی ہو گی اور ان جرنیلوں کا دفاع کر رہی ہو گی۔ جنھوں نے اسے سالہا سال گھر کے زنداں میں قید رکھا تھا اور جن کی وجہ سے وہ اپنے محبوب شوہر کا آخری دیدار نہ کر سکی تھی۔
1994میں نوبیل امن انعام پانے والی سوچی ان دنوں "دی ہیگ" میں برما کے فوجی جرنیلوں کا مقدمہ لڑرہی ہیں اور یہ کہہ رہی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا گیا ہے۔
ان کی حکومت پر قتل عام کا مقدمہ ایک چھوٹے سے افریقی ملک گیمبیا نے قائم کیا ہے۔ اپنے ملک کی جرنیلی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے سوچی نے کہا کہ "برائے مہربانی ہمارے ملک کی پیچیدہ صورتحال کو نظر میں رکھیں " دی ہیگ کی عدالت میں وہ حالیہ واقعہ بھی زیر بحث ہے جس میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر نے روہنگیائوں پر فائر کھول دیا تھا اور کئی لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ سوچی کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ ان کے علم میں ہے لیکن اس میں جان بوجھ کر روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ آزاد ہونے اور جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتوں کے بعد سوچی اب میانمار کی وزیر خارجہ ہیں اور اسی حیثیت سے وہ دی ہیگ جاکر اپنا اورفوجی حکومت کا دفاع کر رہی ہیں۔
اب سے چند برس پہلے ہم نے سوچی کے حق میں لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر دیے تھے۔ اس کی رہائی ہمارے لیے ایک ذاتی مسئلہ تھی لیکن آج جس سوچی نے اپنے فوجی جرنیلوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ ان کا مقدمہ لڑا تھا، وہ کون تھی؟
میں سوچ رہی ہوں کہ اقتدارکیا اتنی ہی خوفناک چیز ہے کہ وہ بڑے بڑے دلاوروں کے قدم ڈگمگا دیتا ہے؟ کیا مہاتما بدھ اگر زندہ ہوتے تو وہ اپنے اصولوں سے روگردانی کرتے؟ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کیا کرتے؟ اور ہماری بے نظیر بھٹوجنھوں نے آمریت کے ہاتھوں کون سا صدمہ نہیں سہا، کیاآمریت کی چھتر چھایا میں اگر وہ وزیر اعظم بنتیں تو انھیں کون کون سے سمجھوتے کرنے پڑتے؟
زندگی ایک عجیب گورکھ دھندا ہے۔ اسی لیے کبیر نے کہا ہے :
اس کی بازی گری سے دیوتا، انسان، منی سبھی دھوکا کھاتے ہیں کیوں کہ مایا جادو چلتا ہے۔ اس نے اپنے گھر میں ڈال کر سبھی کو بھرمایا اور ان کے دل میں فہم نہ آئی۔
بازی جھوٹی ہے لیکن بازی گر سچا ہے یہ سادھو مانتے ہیں۔
کبیر کہتے ہیں کہ جنھوں نے جیسا سمجھا ان کی حالت بھی ویسی ہوئی۔
سوچی مہاتما بدھ کی ماننے والی ہیں، جانے ان کے خیال میں کیا آئی یا وہ بھی یہی کہتی رہ گئیں کہ دیکھ کبیرا رویا۔
واقعی وہ کون تھی جس کی جرات مندی پر ہم فدا تھے۔