آج آپ کی ملاقات ایک ایسی غیر معمولی شخصیت سے کراتی ہوں جس کی قابلیت اور بصیرت سے دنیا کے بہت زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں۔ اس شخصیت کی پیدائش اسمارا، اریٹیریا میں ہوئی تھی۔ یہ شہر اس وقت ایتھوپیا کا حصہ تھا لیکن آج اریٹیریا نامی افریقی ملک کا دارالحکومت ہے۔
یہ شخص آج بھی بڑے دکھ سے اپنے چھوٹے بھائی کو یاد کرتا ہے جو بچپن میں ہی خسرے کی بیماری کا شکار ہو کر ختم ہوگیا تھا۔ اس وقت اس کے بھائی کی عمر چار سال تھی۔ خسرے کی بیماری سے بچنا ممکن تھا لیکن صحت کا بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچہ اپنی جان سے چلا گیا۔ چھوٹے بھائی کی موت نے اس پر گہرا اثر ڈالا اور اس نے تعلیم حاصل کر کے انسانوں کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
1986 میں اس نے حیاتیات (بیالوجی) میں اسمارا یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ جس کے بعد اس نے لندن یونیورسٹی کے اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن سے متعدی اور وبائی امراض سے بچاؤ کے علم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا اور 2000 میں یونیورسٹی آف ناٹنگھم سے کمیونٹی ہیلتھ میں ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کر لی۔ 2001 میں اسے ایتھوپیا کے ریجنل ہیلتھ بیورو کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جہاں اس کی غیر معمولی صلاحیتوں نے لوگوں کو حیران کرنا شروع کر دیا۔
اس خطے میں ان دنوں ایڈز کے بیماری بہت وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اس میں 22 فیصد کمی لانے میں کامیاب ہو گیا، اس علاقے میں گردن توڑ بخار سے بہت سے لوگ ہلاک ہو جاتے تھے، اس کے اقدامات کے باعث اس بیماری میں 69 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کے آنے سے پہلے خطے میں خسرے کے ٹیکے لگانے کی شرح پچاس فیصد تھی جو اس کے دور میں بڑھ کر 98 فیصد ہو گئی، افریقا کے اس علاقے میں 69 فیصد آبادی کو ہر 10 کلومیٹر کے اندر صحت کی سہولت تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس غیر معمولی شخص کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے ایتھوپیا کا وزیر صحت اور وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔
2016 میں یہ شخص عالمی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے 69 ویں اجلاس میں وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لیے خود کو ایک امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ اس عہدے کے لیے افریقا کا واحد امیدوار ہے۔ اسے افریقین یونین کے تمام ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ اپنے تجربے اور شاندار خدمات کے باعث وہ اس انتہائی اہم عہدے کا موزوں ترین امیدوار تھا۔ جنوری 2017 میں ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارہ صحت) کے 140 ویں اجلاس میں ایگزیکٹو بورڈ نے سخت چھان بین کے بعد چھ امیدواروں کی ایک مختصر فہرست جاری کی۔ ان تمام امیدواروں کو خفیہ ووٹنگ کے دو مرحلوں سے گزرنا تھا۔
اس امیدوار کو نہ صرف افریقی بلکہ ایشیائی ملکوں اور چین کی حمایت حاصل تھی۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے اس کے مخالف امیدوار برطانوی ڈاکٹر ڈیوڈ نابیرو کی حمایت کی۔ انتخابات میں اسے 185 میں سے 133 ووٹ حاصل ہوئے، اس کی کامیابی تاریخی تھی کیونکہ وہ صحت کے اس اہم ترین عالمی ادارے کا پہلا افریقی سربراہ تھا۔ اب آپ جان گئے ہوں گے کہ اس وقت کس شخصیت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ جی ہاں، یہ وہی ٹیڈ روز ایڈہانوم ہیں جو اس وقت عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور جن سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج کل بہت ناراض ہیں۔
ڈاکٹر ٹیڈ روز نے آج سے دو سال پہلے 12 فروری 2018 کو دبئی میں منعقد ہونے والی ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں ایک چونکا دینے والی تقریر کی جو ان کی گہری بصیرت اور دور اندیشی کی غمازی کرتی تھی۔ اس تقریر کا آغاز کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ میں اپنی بات ایک کہانی میں بیان کروں گا۔ ہوا یہ کہ ایک فوجی کیمپ میں، ایک باورچی میڈیکل سینٹر آیا، اسے بخار، گلے میں خراش اور جسم میں درد کی تکالیف تھیں۔ چند منٹوں بعد انھیں علامات کے ساتھ ایک دوسرا سپاہی آتا ہے، دوپہرے کے کھانے تک اس طرح کے 100 سے زیادہ مریض آ جاتے ہیں، ہفتے کے اختتام تک ان کی تعداد 500 سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہ فوجی ان بٹالینوں کے ہیں جنھیں محاذ جنگ پر روانہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بند جگہوں پر رہتے ہیں اور بڑی تعداد میں آتے جاتے رہتے ہیں، جو وائرس پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ چند مہینوں میں یہ وائرس پانچ براعظموں میں پھیل جاتا ہے۔ مریضوں کی سانسیں رکنے لگتی ہیں۔
ان کے جسم نیلے پڑ جاتے ہیں۔ اس وائرس کی کوئی دوا نہیں ہے، مرنے والوں کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسکول، عبادت گاہیں، سینما گھر اور عوامی مقامات بند ہیں، کاروبار جلد بند کیے جا رہے ہیں۔ دفن کرنے کا وقت بھی 15 منٹ کر دیا گیا ہے۔ مردوں کے لیے تابوت کم پڑ گئے ہیں۔ یہ وبا جس تیزی سے آئی تھی اچانک اسی طرح ختم ہو جاتی ہے لیکن اس دوران دنیا کی ایک تہائی آبادی اس سے متاثر ہو جاتی ہے اور 10 کروڑ لوگوں کی زندگی ضایع ہو جاتی ہے۔ ٹیڈو روز کہتے ہیں یہ مستقبل کا منظر نامہ نہیں بلکہ 100 برس پہلے کا قصہ ہے جب 1918 میں اسپینش فلو نے دنیا میں تباہی مچائی تھی۔
دو سال قبل کی تقریر میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روز کہتے ہیں کہ 1918 کی وبا سے کئی سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔ یعنی کہ کوئی بھی وبا، کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور وہ لاکھوں لوگوں کو اس لیے ہلاک کر سکتی ہے کیوں کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بہت غیر محفوظ ہیں۔
شکر کرنا چاہیے کہ ہمیں 1918 کی طرح صحت کی کسی ہنگامی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے لیکن ایسی وبا کسی بھی وقت آ سکتی ہے، وباؤں کا آنا ایک حقیقت ہے مگر ہم اس کا سامنا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ یہ کافی نہیں ہے کہ وبا پھوٹ پڑے تو ہم اس کا مقابلہ کریں۔ اصل کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اسے ہر قیمت پر شروع ہی نہ ہونے دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ہیلتھ سیکیورٹی کو بہتر بنانا اور کمزور طبقات کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی یعنی تین ارب پچاس کروڑ لوگوں کو صحت کی ضروری سہولتوں تک رسائی نہیں ہے۔
ہر سال 10 کروڑ افراد اس لیے غربت کی سطح پر چلے جاتے ہیں کیونکہ انھیں اپنی صحت پر پیسہ خود اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیڈ روز کہتے ہیں کہ ہر ملک کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنے تمام لوگوں کو صحت کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ لوگوں کے قریب ہیلتھ ورکر نہ ہوں اور لوگ صحت کی خدمات حاصل کرنے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں وہاں وبا پھیلنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ وباؤں سے معیشت تباہ ہوتی ہے۔ تمام شہریوں کو صحت کی تمام سہولتیں حاصل کرنے سے ایک مضبوط اور طاقتور سماج قائم ہو جاتا ہے جو وباؤں کا بہتر مقابلہ کر سکتا ہے۔ اپنی تقریر کا اختتام انھوں نے اس جملے پر کیا تھا کہ "احتیاط نہ صرف علاج سے بہتر ہے بلکہ سستی بھی ہے۔"
کورونا وائرس کی اس وبا نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے 2 سال قبل بیان کردہ تمام خدشات کو درست ثابت کیا کہ کوئی وبا، کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت پھوٹ سکتی ہے اور یہ کہ عالمی سطح پر صحت کے ادارے اور نظام مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہیں۔ اس نکتے پر غور کی ضرورت ہے کہ صحت پر سرمایہ کاری کر کے کھربوں ڈالر کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ حکومتیں کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنے پر تیار ہیں لیکن صحت پر سرمایہ لگانے پر آمادہ نہیں ہیں۔