72سال سے ہمارے ملک کے 22 کروڑ عوام کو جمہوریت کا لالی پاپ دے کر بہلایا جا رہا ہے، عوام میں تو شعورکی کمی ہو سکتی ہے لیکن سیاسی رہنماؤں کو کیا کہیے کہ وہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک جمہوریت کے قہر سے باہر نہ آسکے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ اتنی چالاک ہے کہ عوام کو تقسیم کرکے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔
زبان قومیت رنگ نسل وغیرہ کے حوالے سے عوام کو نہ صرف تقسیم کردیا بلکہ انھیں ایک دوسرے سے دور کرکے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام اب تک یعنی 72 سال سے متحد نہ ہو سکی، قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد تک تو جمہوریت کسی نہ کسی حوالے سے روبہ عمل رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار مافیا مضبوط ہوتی گئی اور حالت یہ ہوگئی کہ اقتدار اس مافیا کی میراث بن گیا۔ بات صرف اتنی نہیں بلکہ اقتدار کو اربوں روپے کی لوٹ مار کا ذریعہ بنالیا گیا۔
یہ اقتدار کی لڑائی نہ عوام کے مفاد کے لیے ہے نہ جمہوریت کے لیے بلکہ یہ ایک چھوٹا گینگ ہے جو سیاست اور اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی دانشوروں کی کمی نہیں لیکن بدقسمتی سے یہ محترم لوگ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتے جب سے پیسہ ریاست کا ستون بن گیا ہے۔ جمہوریت منہ چھپاتی پھر رہی ہے سرمایہ دار ملکوں میں کرپشن معمول کی بات ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں للو پنجو ہمارے رہنماؤں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں اور یہی آبادی علاقوں کا 70 فیصد زیادہ حصہ کسانوں پر مشتمل اس کے علاوہ وہ کروڑوں غریب عوام ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عوام میں شعور کی کمی کی وجہ سے ہماری اشرافیہ کے چند خاندان جو اب صرف دو خاندانوں میں محدود ہوگئے ہیں اس ملک کو چلا رہے ہیں۔ سیاسی سطح پر ایک انارکی کا عالم ہے، ہمارے ملک کے عوام میں کیونکہ لٹریسی کا فقدان ہے لہٰذا ہمارے سیاسی رہنما عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔
ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے بعد دنیا کے ملکوں میں سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا کیونکہ استحصالی نظام میں عوام کو بھیڑ بکریوں سے بدتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں میں کیونکہ جاگیردار مضبوط طبقے کی حیثیت رکھتا ہے سو اس نے جاگیردارانہ نظام کو ختم ہونے نہیں دیا اور لوٹ مار کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ حد یہ ہے کہ آج بھی سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں جاگیردارانہ نظام پوری آب و تاب سے چل رہا ہے۔
بدقسمتی سے جاگیردارانہ نظام کو مضبوط بنانے کے لیے جاگیردارانہ حامیوں نے ایک نئی چال چلی کہ انھوں نے سرمایہ داروں کو اپنا ساتھی بنالیا، یہ شراب دوآتشہ ہوگئی اور اب تک جب کہ 72 سال گزر گئے ہیں یہ پارٹنرشپ اور مضبوط ہوگئی ہے جس کا مشاہدہ ہماری سیاست سے کیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی تربیت غیر جمہوری ہاتھوں میں ہوتی ہے یہ طبقات محض عوامی دولت کی لوٹ مار کے لیے نہ صرف متحد ہیں بلکہ دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا۔ یہ طبقہ جس جمہوریت کی بات کرتا ہے۔
اس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں پچھلے 10 سالوں میں ہمارے انھی سیاستدانوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب عوام مانگتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس جمہوریت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں اس میں عوام سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط بھی ہے۔
اس نامنصفانہ نظام کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے یہ سوال ملک کے ہر محب وطن عوام کے دماغ میں گونج رہا ہے، بلاشبہ ترقی پسند دنیا میں جمہوریت کو پسند کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔ یہ حال صرف پسماندہ ملکوں کا نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کا بھی ہے۔ میڈیا ایک اہم اور بڑی طاقت ہے اگر میڈیا اس پورے کرپٹ نظام کے خلاف منظم آواز اٹھائے تو بلاشبہ یہ نظام کمزور ہو سکتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نظام اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتا جب تک عوام ایک عزم اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے نہ بڑھے۔ ہم نے جیسے کے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں مزدور کسان اور غریب عوام ایک ہی طرح کے استحصال کا شکار ہے اگر یہ متحد ہو جائیں تو اس مافیا کو ختم کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے عوام میں اتحاد اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔
حکومت ہرچند کہ کرپشن کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے لیکن کرپٹ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ اسے پیچھے دھکیلنے کے لیے عوامی اتحاد کی ضرورت ہے جس کے لیے ملک کے دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کیا یہ ممکن ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جس کی داستانیں آج بھی میڈیا میں گونج رہی ہیں لیکن قانون اور انصاف کا یہ عالم ہے کہ وہ آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں حقائق کو چھپانے کے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے جب کہ ملک کا بچہ بچہ اس عوام دشمن کی کرپشن سے واقف ہے لیکن چونکہ کرپشن کے مسئلے پر تقریباً تمام زعما متفق ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں یہ اتحاد ہی ہے جس نے اس ملک کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے ان حالات میں مڈل کلاس کا ایک تشخص عمران خان کرپشن کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی آمد سے اگرچہ سیاسی مافیا پریشان ہے لیکن اس کرپشن جس کی کوئی انتہا نہیں پھر بھی جاری ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک استحصالی طبقے کی حیثیت سے منظم ہے اور ابھی اربوں روپے کی کرپشن کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے اپوزیشن کے رہنما پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 26 ارب روپوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں شفٹ کردیا گیا یہ خبریں اخبارات کے پہلے صفحے پر چھپ چکی ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی اس کی وجہ یہ کہ اوپر کے طبقوں میں اس کرپٹ مافیا کے لوگ موجود ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس کا جو رول بتایا گیا ہے اس کے خلاف وہ دشمنوں کی صفوں میں مضبوطی سے بیٹھ گئے ہیں۔ یہ صورتحال ملک اور قوم کے لیے بہت خطرناک ہے سوال یہ ہے کہ اس طاقت ور مافیا کو پیچھے دھکیلنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ سیاسی محاذ پر جو افراتفری اور بے تحاشا لوٹ مار کا جو سلسلہ چل رہا ہے اسے کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟