Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bechare Siyasi Karkun

Bechare Siyasi Karkun

میں ٹی وی پر جلسے جلوس بہت کم دیکھتا ہوں کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کے بعد سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں عوام بہت کم آتے ہیں، کرائے کے افراد بہت ہوتے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس جلسوں، جلوسوں کا ایک باضابطہ بجٹ ہوتا ہے جو جلسوں جلوسوں کو کامیاب بنانے میں کام آتا ہے۔

آج کل بھی جلسوں کا موسم ہے، بڑے بڑے جلسے زور شور سے جاری ہیں، حکومت یعنی عمران خان نے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام سے رابطہ توڑ لیا ہے، البتہ میدان کو خالی دیکھ کر کئی ایک پارٹیاں متحدہ جلسے کر رہی ہیں کہ اس طرح جلسوں میں عوام کی حاضری بڑھ جائے جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ آج کل جلسوں کا موسم عروج پر ہے اور "بڑی محنت سے" سیاسی جماعتیں لوگوں کی بڑی تعداد کو ان جلسوں میں لانے کی کامیاب کوشش کر رہی ہیں۔

ہم کالم لکھتے وقت ٹی وی اسکرین پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ کالم میں تازہ ترین خبروں کو شامل کریں، آج ہم کالم لکھ رہے تھے کہ ہماری نظر ٹی وی پر چلی گئی اور ہم سچ مچ حیران رہ گئے، جب ہم نے ٹی وی پر "عوام" کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھا اور اس سے بڑا لہراتا ہوا کالے پیلے جھنڈوں کا سمندر دیکھا اور حیران رہ گئے کہ جلسے کے قائدین ملک کو غریب کیوں کہہ رہے ہیں حالانکہ پرچموں کی بہتات دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ہمارا ملک ہرگز غریب نہیں بلکہ امیر ترین ہے۔

ہمارے عوام اب بوجوہ اتنے کاہل ہوگئے ہیں کہ جلسوں جلوسوں میں پیدل نہیں جاتے بلکہ آرام دہ ٹرانسپورٹ میں جاتے ہیں، اچانک ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اتنے بڑے ہجوم کو جلسہ گاہ میں پہنچانے کے لیے کتنے سو گاڑیاں کرائے پر لینی پڑی ہوں گی اور کتنا کرایہ ادا کرنا پڑا ہوگا۔ اس قسم کے حساب کتاب ایک دو صفحات پر نہیں آ سکتے اس کے لیے ایک دو دستے کاغذ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ملوں، کارخانوں میں عشروں سے ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے مزدور اس کو غلامانہ نظام کہتے ہیں، اسے ختم کرنے کے لیے مزدوروں نے بڑی جدوجہد کی، بڑی قربانیاں دیں لیکن یہ نظام ختم ہونے کے بجائے اور مستحکم ہو گیا۔ جلسوں جلوسوں میں بھی اب ٹھیکیداری نظام مضبوط ہو رہا ہے۔

بس "روپوں " کی ضرورت ہوتی ہے جتنے عوام چاہئیں حاضر ہیں۔ لیکن ان میں بھی معلوم ہوا کیٹگریاں بنی ہوتی ہیں، جتنے نعرے جیسے نعرے ہوں، اس کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔"مزدور" ٹھیکیداری نظام سے بے زار ہیں لیکن یہ نظام اب اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ اس سے نجات پانا مشکل ہے۔

اب پاکستان میں سیاسی کلچر تبدیل ہوگیا ہے، سیاسی کارکن بھی جلسے جلوسوں میں جانے اور واپس آنے کی سہولت مانگتے ہیں۔ یوں سیاسی جلسوں پر ماضی کی نسبت اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں۔ کوئی پارٹی جلسہ کرے تو اس کے پاس اچھا خاصا بجٹ ہونا چاہیے۔ ادھر عمران خان کے دور حکومت میں بے روزگاروں کی تعداد میں جی بھر کے اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ بیروزگار لوگ بھی کوئی نہ کوئی مصروفیت چاہتے ہیں۔ رقم ہو تو جتنے چاہئیں دستیاب ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک کی سیاست پر ہمیشہ ایلیٹ کا قبضہ رہا ہے لہٰذا ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی ہے، اور پیسے میں اتنی طاقت اور قوت ہوتی ہے کہ وہ جو چاہے کرا سکتا ہے۔ عوام سیاست کے گندے کھیل سے اب بے زار ہوگئے ہیں۔ عوام کی سیاست بے زاری سے سیاست میں سیاسی کارکنوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز کا نعم البدل موجود ہوتا ہے، تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی، سیاسی کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کئی متبادل ہیں جن میں سے ایک متبادل طلبا اور دوسرا متبادل مذہبی کارکن ہوتے ہیں۔

مذہبی کارکن سیاسی چالبازیوں سے پاک ہوتے ہیں، ایسے نیک اور پاک باز نوجوانوں کو جب سیاسی جلسوں میں لا کر ان سے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگوائے جاتے ہیں تو عشروں سے مذہبی تربیت یافتہ ان کا ذہن اس نئے کلچر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، وہ نیم دلی سے جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن یہ نعرے ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے آج جو رہنما ان طلبا اور مذہبی کارکنوں کو سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں لاکر دراصل انھیں سیاسی گندگی میں گھسیٹ رہے ہیں۔

ہماری آج کی سیاست ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی سیاست ہے۔ سیاسی کارکن بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاست میں جھوٹ، مکاری، عیاری جیسی لعنتیں شامل ہوتی ہیں لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں ان لعنتوں سے پاک ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مذہبی کارکنوں کے صاف ستھرے ذہنوں میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہوگا کہ ہمیں ایلیٹ کی سیاست سے آلودہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر مذہبی رہنما سیاسی رہنماؤں پر کھلی تنقید کریں گے تو سیاسی رہنما بھی جواباً مذہبی رہنماؤں پر بے پردہ تنقید کریں گے۔ اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ منہ پھٹ سیاست دان ایک دوسرے کو نامناسب القابات سے پکارتے ہیں۔ کیا ہماری سیاسی ومذہبی قیادت الزامات کے اثرات کو سمجھتی ہے؟ ہم نہ سیاست دان ہیں نہ سیاست کی گندگیوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ہماری سیاست اس قدر آلودہ ہوگئی ہے کہ اسے سیاست نہیں بلکہ جھوٹ فریب کہیں تو زیادہ مناسب ہے، کیا مخلص سیاسی ومذہبی کارکنوں کو اس آلودہ سیاست میں لاکر ان کا ذہن اور مستقبل تباہ کرنا مناسب ہے؟