امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ کورونا کے وجود میں آنے کا پتا لگایا جائے گا۔ اس حوالے سے انھوں نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک مثبت اور بامعنی حکم ہے کیونکہ اگر یہ پتا چل جائے کہ اس مہاروگ کی ابتدا کیسے اور کہاں سے ہوئی تو اس حوالے سے کارآمد معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔
جوبائیڈن نے جس وبا کی تحقیق کا حکم دیا ہے اس وبا نے اب تک لاکھوں انسانوں کی جان لی ہے اور جانی نقصان کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جوبائیڈن کے مطابق اگر اس وبا کی جائے پیدائش اور وجہ وجود کا پتا چل جائے تو اس وبا کی تحقیق میں بہت مدد ملے گی اور کورونا کے وجود میں آنے کے حوالے سے بہت سی کارآمد معلومات حاصل ہوں گی۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں کورونا جیسی بہت سی وبائیں دنیا میں آئیں اور انسانی زندگیوں کو بھاری نقصان پہنچا کر چلی گئیں لیکن اس حوالے سے کسی وبا کے حوالے سے اتنا خوف بہت کم وباؤں سے پھیلا ہے کیونکہ کورونا کے مرض میں مبتلا لوگوں کو جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اس کے تصور ہی سے انسان وحشت زدہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اسے نسبتاً کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اس وبا کی تحقیق کا حکم دے کر ایک انتہائی مثبت اور بامعنی قدم اٹھایا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ کورونا ایک انتہائی تکلیف دہ اور خوفناک بیماری ہے۔ جوبائیڈن کے حکم پر عمل کرکے اگر کورونا کی جائے پیدائش اور وجہ پیدائش کا پتا لگا لیا گیا تو اس حوالے سے ممکنہ طور پر کی جانے والی تحقیقات میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہم نے اس حوالے سے کئی بار یہ تجویز پیش کی ہے کہ اس وبا کی دہشت اور اس کے مریضوں کی خوفناک تکلیف کے پیش نظر اس کی ممکنہ تحقیق کے لیے عالمی سطح پر ایک طبی ماہرین کی کمیٹی بنا دی جائے جو اس کے علاج کے حوالے سے کام کرے۔
دنیا کو وجود میں آئے کتنا عرصہ ہوا اور اس عرصے میں کتنی وبائیں آئیں اور کتنا جانی نقصان ہوا، اس کا اندازہ کرنا تو مشکل ہے لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ ایسی وبائیں آئیں جن کی وجہ سے انسانوں کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت کا شمار بھی پسماندہ ملکوں ہی میں ہوتا ہے لیکن جانی نقصان کے حوالے سے بھارت بہت متاثر ملک ہے۔
پاکستان میں کورونا سے جانی نقصان اٹھانے والوں کی تعداد لگ بھگ 20 ہزار ہے جب کہ بھارت میں اس وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ ہے اس کی وجہ بے احتیاطی بھی ہے۔ بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب ہے اتنی گنجان آبادی میں کورونا جیسے انسانوں کو دور دور رکھنے والے مرض میں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے۔
اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ پسماندہ ملکوں میں امراض کی تحقیق کا کلچر سرے سے ہے ہی نہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان سے اندازہ ہوا کہ مرض کی تحقیق کس قدر ضروری ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں صفائی ستھرائی کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے مہذب ملکوں میں جس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، روس وغیرہ شامل ہیں اس وبا سے پسماندہ ملکوں سے زیادہ جانی نقصان باعث حیرت ہے۔
جہاں تک مرض کا احتیاط سے تعلق ہے تو اس حوالے سے جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں سر سے پاؤں تک بے احتیاطی کا کلچر موجود ہے۔ اس کے باوجود ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہمارے جیسے پسماندہ ملک میں کم جانی نقصان کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
نقصان خواہ ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ ہو یا پسماندہ ملکوں میں زیادہ ہو، نقصان بہرحال نقصان ہے لیکن جہاں تک احتیاط کا تعلق ہے وہ پسماندہ ملکوں میں برائے نام ہی ہے اس حوالے سے مغرب کے مقابلے میں زیادہ بلکہ بہت زیادہ نقصان ہونا چاہیے لیکن مغرب کے مقابلے میں جہاں زیادہ صفائی ستھرائی زیادہ احتیاط کی جاتی ہے زیادہ نقصان کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس حوالے سے بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ کورونا کا سب سے بڑا ہدف پھیپھڑے ہوتے ہیں مریض کو سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے، دم گھٹ جاتا ہے، یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں آکسیجن کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔
پاکستان میں چین سمیت دوست ملکوں سے بھاری مقدار میں ویکسین لی گئی ہے ہمارے حکمران عوام سے بار بار درخواست کر رہے ہیں کہ عوام بلاتاخیر ویکسین لگائیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن حماقت یہ ہے سیکڑوں میل پر پھیلے ہوئے 3 کروڑ آبادی کے اس شہر میں صرف چند ویکسین سینٹر ہیں اور وہاں بھی شنوائی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے میں ویکسین سینٹر 24 گھنٹے کھلے رہیں تاکہ علاقے کے عوام کو ویکسین سینٹر تک پہنچنے میں آسانی ہو اور زیادہ سے زیادہ عوام ویکسین لگا سکیں۔