"غریب اپنی مرضی سے غریب پیدا نہیں ہوتا لیکن ساری زندگی اپنی مرضی سے غریب رہتا ہے۔ " یہ بات انور مقصود نے کہی ہے، یہ ایک ایسا آفاقی سچ ہے جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا۔
اس حد تک تو بات درست ہے کہ غریب ساری زندگی اپنی مرضی سے غریب رہتا ہے، لیکن جس مرضی سے وہ غریب رہتا ہے وہ اس کی اپنی مرضی نہیں ہوتی بلکہ اس نظام کی مسلط کردہ ہوتی ہے جو ملک میں رائج ہوتا ہے۔ غریب چاہے بھی تو وہ اس مرضی سے نجات حاصل نہیں کرسکتا جو ہر غریب کے پاؤں میں بیڑی کی طرح پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی کوکسی بات کا احساس ہو تو وہ اس بات کا نوٹس لیتا ہے، جب کسی کو اپنی کسی کمزوری کا احساس ہی نہیں ہو تو پھر وہ اس کمزوری کوکس طرح دور کرسکتا ہے۔
غریب کو پہلے اس کی کمزوری کا احساس دلایا جاتا ہے، مختلف طریقوں سے اسٹڈی سرکل میں سیل کی میٹنگ میں تقاریرکے ذریعے پمفلٹ کے ذریعے جب کہیں جاکر غریب کو احساس ہوتا تھا کہ وہ غریب ہے اورکیوں ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان احساس دلانے والوں کا "نیٹ ورک " ہی ٹوٹ گیا اب صرف گریہ و زاری رہ گئی ہے۔ اس لیے غریب اپنی مرضی سے غریب بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ وہ پورا سیٹ اپ ہی ٹوٹ گیا جو غربت اور امارت کے فلسفوں پر غورکرتا تھا، بحث کرتا تھا اور عام لوگوں تک اس بحث کو پہنچاتا تھا اب گزرے ہوئے ایام کا ماتم کب تلک والی بات رہ گئی ہے۔
غربت کا احساس ان لوگوں کو بہرحال ہوتا رہتا ہے جو سخت فزیکل لیبرکرتے ہیں۔ مثلاً مزدور، کسان وغیرہ کیونکہ وہ صبح سے شام تک جب سخت محنت کرنے کے بعد رات کو بھوکے سوتے ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی دن بھرکی محنت کہاں گئی؟ یہ کام عوام کے دوست بڑی جانفشانی سے کرتے تھے چونکہ اب عوام کو طبقاتی تقسیم دینے والا وہ پورا سیٹ اپ ہی ختم ہوگیا ہے لہٰذا اب غریب کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ وہ غریب کیوں ہے۔
جس کا نتیجہ ایک لامتناہی خاموشی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حوالے سے سوچنے والے اب عمرکے اس حصے میں ہیں، جہاں ذہنی اور اعصابی طاقت جواب دے جاتی ہے۔ ابھی دس منٹ پہلے بڑے دنوں بعد اس شخص کا فون آیا تھا جسے تلاش کرتے کرتے میں تھک گیا تھا۔ اس شخص کا نام ظفر اسلم ہے جو برین ہیمبرج کا شکار ہوگیا تھا، ایک طویل عرصے بعد اب ان کی طبیعت میں کچھ بہتری آئی ہے بڑی مشکل سے چند منٹ انھوں نے بات کی بس انھیں بھی دکھ تھا تو یہی تھا کہ اتنا اچھا سیٹ اپ کیسے ٹوٹ گیا۔
ظفر اسلم کی پوری زندگی طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہے، جو اس کام میں ایک بار لگ جاتا ہے وہ سر اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ اس کی کنپٹی کے بال سفید ہوگئے، وہ بوڑھا ہوگیا لیکن فخر سے اس کا سر بلند ہوجاتا ہے کہ اس کی زندگی رائیگاں نہیں گئی۔
پاکستان کی بائیس کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں اورکسان دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ ہیں یہ کروڑوں مزدور اورکسان ہاشیے پر زندہ ہیں جنھیں اپنی غربت کا بھی احساس نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو فیصد ایلیٹ میں شامل یہ مالکان کیا کارخانوں ملوں میں کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتے ہیں؟ پھر یہ لٹیرے ملوں، کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں کی کروڑوں کی آمدنی پرکیوں ہاتھ صاف کرتے ہیں۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب سے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام متعارف ہوا ہے، سرمایہ دار طبقے نے یہ روایت ڈالی ہے کہ ملوں کارخانوں کے اصل اور بھاری منافعے پر قبضہ کرلینے کی روایت کو قانون بنا دیا ہے جب کہ ملوں کارخانوں سمیت تمام پیداواری یونٹوں میں پیداوارکی ذمے داری مزدوروں پر ہوتی ہے، خواہ بارش ہو، سردیاں ہوں یا قیامت خیزگرمی ہر حال میں مزدورکو پیداوار کا ہدف پورا کرکے دینا ہوتا ہے۔
آج کل ایلیٹ کی ملوں، کارخانوں میں کرپشن کے حوالے سے احتساب ہو رہا ہے جو محض اشک شوئی لگتا ہے، بلاشبہ بعض لیڈروں کو سزا ہوئی ہے لیکن بے شمار سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ پھر بھی قیدیوں کی نا انصافی کی شکایتیں عام ہیں اگر جیل قوانین کے مطابق قیدیوں سے برتاؤکیا جاتا تو اب تک احتساب کا نتیجہ لازماً برآمد ہوتا۔
میں نے اس اصل مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ ملوں، کارخانوں، کھیتوں، کھلیانوں سے جو بے بہا آمدنی ہوتی ہے، اس کے اصل مالک مزدورکسان ہیں کیونکہ اے ٹو زیڈ پیداوارکا پورا عمل مزدور اور کسان کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مزدوروں اورکسانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ 72 سال سے اقتدار میں آ رہے ہیں لیکن مزدوروں اورکسانوں کو ان کا حق کسی نے نہ دیا صرف گریبی پر ٹرخاتے رہے۔ ایسا کیوں؟ سرمایہ دار اور صنعتکارکا سرمایہ عموماً اس کا اپنا نہیں ہوتا بلکہ بینکوں سے قرض لیا جاتا ہے، بینکوں کے قرض کے علاوہ جو سرمایہ صنعتوں میں لگایا جاتا ہے، وہ آبائی ہوتا ہے یعنی باپ دادا کا لوٹا ہوا ہوتا ہے۔
ظفر اسلم اپنی پارٹی کی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے برین ہیمبرج کا شکار ہوئے اب وہ تقریباً سال بھر بعد مختصر سی بات کرنے کے قابل ہوئے ہیں تو انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ "کام کیسے چل رہا ہے" ڈیئر ظفر اسلم کام حسب سابق چل رہا ہے، جسے اگر ہم یہ کہیں کہ کچھ نہیں چل رہا ہے تو زیادہ سچ ہوگا۔ جو لوگ مخلص بھی ہیں، کام کرنے کے قابل بھی ان کی ذمے داری ہے کہ مزدوروں کسانوں کو ان کا پورا حق دیں کیونکہ یہی مزدور کسان، ملوں، کارخانوں، کھیتوں، کھلیانوں کے حقیقی مالک ہیں۔