وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مغربی ملک سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ پہلے مغربی ملکوں کو یہ انفرادیت حاصل تھی کہ وہ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی کی لعنتوں سے پاک تھے جس پر مغرب فخر کرتا تھا لیکن یہ کیسی بدبختی ہے کہ آج مغرب نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے بلکہ اس کے پروڈکٹ دہشت گردی سے بھی مالا مال ہے۔
پچھلے دنوں کینیڈا میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مسلم خاندان کے خلاف جس جہل کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ ساری دنیا چونک گئی اور حیران ہے کہ اس مہذب خطے اور تعلیم یافتہ معاشرے کوکیا ہوگیا ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں سے زیادہ پسماندگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم ہر معاشرے ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن اسے ایک نام دے کر اس کے خلاف نفرت پھیلانا، کسی بھی مہذب ملک کے شایان شان نہیں۔ اسلاموفوبیا ایک نئی بیماری ہے اور یہ تیزی سے مہذب ملکوں میں سرائیت کررہی ہے۔ دور جہالت میں اس قسم کی بیماریاں عام تھیں لیکن جب سے علم کی روشنی دنیا میں پھیل گئی ہے جہل کا کلچر نابود ہوتا گیا ہے لیکن حیرت ہے کہ اکیسویں صدی میں جس جہل کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں ان سے ہر اہل عقل سخت پریشان ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ نفرت پھیلانے والی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ مغرب میں اہل دانش، اہل فکر بڑی تعداد میں موجود ہیں ویسے بھی ان علاقوں میں علم کی شمع فروزاں ہے اس کے پس منظر میں مذہبی جہل کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ بلاشبہ مغرب کے اہل دانش حیران ہوں گے کہ یہ مہلک بیماری مغرب میں کس طرح گھس آئی ہے۔ اس بیماری کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اپنی ذمے داریاں پوری کرتے رہیں گے لیکن اس بیماری یا وبا کا تعلق فکری بھی ہے۔
اس لیے دنیا بھرکے اہل فکر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور ایک پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس وبا کے خلاف جہاد کریں۔ جہاد کا لفظ میں نے تکنیکی حوالے سے استعمال کیا ہے۔
انسانیت کے بہی خواہ شاعروں اور ادیبوں نے انسانی عظمت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے، اب اس انسانیت کی بھلائی کی تحریروں کو ٹی وی سے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ نشرکرکے اس میدان کو برائیوں کے خلاف اور اچھائیوں کے حق میں استعمال کریں۔ دنیا جیسے جیسے معاشی ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے سماجی برائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ انسان دشمنی دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی عنایت نظر آرہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ چیک کریں کہ مذہبی انتہا پسندی کا تعلق کہیں سرمایہ دارانہ کلچرکا مرہون منت تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ایک منظم مہم کے ذریعے اس کا مقابلہ کریں۔
یہ چھوٹاموٹامسئلہ نہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ دنیا جہل سے نکل کر اب مہذب معاشروں کی طرف آ رہی ہے۔ کیا اسے پھر جہل کی طرف دھکیلنا عقل مندی ہے۔ کینیڈا کا شمار پرامن ملکوں میں ہوتا ہے ایسے پرامن ملک میں اس شیطانیت کا بھلا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ کینیڈا ایک بین الاقوامی ملک ہے جہاں دنیا کے بیشتر ملکوں کے باشندے روزگار کے لیے آتے ہیں۔ روزگار کے لیے آنے والوں کو اپنے روزگار کی فکر رہتی ہے وہ عام طور پر جھگڑوں سے دور رہتے ہیں ایسے پرامن معاشرے کے ایک خاندان کے قتل کو ایک گہری سازش اور انسانوں کو خون خرابوں کی طرف لے جانے کی سازش ہی کہا جاسکتا ہے یہ بات یقینی ہے کہ کینیڈا کے پرامن عوام بھی ایسی مذموم کوششوں کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔
پہلے ہی دنیا کورونا کی دہشت سے پریشان ہے اس پر مذہبی دہشت گردی انسان کو اپنے غیر یقینی مستقبل سے مایوس کردے گی جس سے دنیا کے پرامن انسانوں کو بچانا ضروری ہے یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کورونا کی دہشت میں مبتلا انسانوں کو مذہبی دہشت گردی کے حوالے کیا جائے۔ ساری دنیا کورونا کی دہشت میں مبتلا ہے ہر شخص سہما ہوا ہے کہ کہیں وہ کورونا کا شکار نہ ہوجائے اور اپنی مقدور بھر کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح کورونا سے بچا رہے اس پر یہ نئے کورونا نے انسان کو دہشت زدہ کردیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے اس بدنصیب ملک میں تقسیم کے دور میں کہا جاتا ہے 22 لاکھ انسانوں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ اس قتل و غارت کے زخم تو بھر گئے ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک بار پھر برصغیر کہیں 1947 میں نہ پہنچ جائے۔ اگر اس قسم کے فسادات ہوتے ہیں تو غریب عوام ہی کو قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت میں ایک ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو ہندوتوا کی حامی ہے اور ہندوتوا جہل کا ایک ایسا شاہکار ہے بلکہ ایسا آتش فشاں ہے جو خدانخواستہ پھٹ پڑے تو جانے انسانی جانوں کا کتنا بلی دان لے۔
کرہ ارض پر بسنے والی تمام مخلوق میں انسان ہی وہ مخلوق ہے جو امن سے رہنے کی خواہش مند ہے وہ کسی حوالے کرہ ارض پر خون خرابا نہیں چاہتی، لیکن جہاں انسان ہوتے ہیں وہاں شیطان بھی رہتے ہیں 1947 میں شیطان اور شیطانیت نے انسانیت کو اس قدر رسوا کیا کہ رسوائی کا یہ داغ شاید قیامت تک انسان کی پیشانی کا داغ بنا رہے۔ برصغیر ایک 1947 سے خون میں نہا کر نکلا ہے اب دوسرے 1947 کے تصور ہی سے کانپ جاتا ہے۔ کینیڈا کے عوام بھی امن پسند ہیں چند شیطان کینیڈا کے پرامن عوام کو سکون برباد کرنا چاہتے ہیں، ایسا کسی قیمت پر نہیں ہونے دیا جائے گا۔