مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنا مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اب چھوٹی موٹی جلسیوں پر آکر رکا ہے، جس کا کسی مناسب وقت انت ہو جائے گا۔ مولانا صاحب کو اس ناکامی اور شرمندگی کا منہ کیوں دیکھنا پڑا اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا کے دو بڑے اتحادی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ مولانا ان دونوں جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا شو پیش کرنا چاہتے تھے، ان کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ف) اپنے ٹرینڈ (مع زیر تربیت) کارکنوں کی ایک بڑی تعداد میدان میں لائی لیکن جس مشن کے لیے یہ سب کچھ پھیلایا گیا تھا، اس کے لیے نہ صرف مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی بلکہ اور ممکنہ اتحادیوں کی بھی ضرورت تھی۔
بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، بلکہ مولانا کو اکیلے یہ ضرورت سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ ہمارے ملک میں کئی ایک مذہبی جماعتیں ہیں لیکن کسی ایک جماعت نے مولانا کا ساتھ نہ دیا۔ اس کی سیاسی اور ذاتی وجہ ہو سکتی ہے اور یہ بات مولانا جانتے تھے کہ ایسا ہو گا لیکن مولانا کو مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ مولانا کی اس جدوجہد میں ان کا یقینی طور پر ساتھ دیں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا، یہ دونوں جماعتیں صرف حاضری لگاتی رہیں، یہ ایک رسمی کارروائی تھی۔
مذہبی جماعتوں میں بدقسمتی سے ہمیشہ مسلکی اختلافات بڑے شدید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات اپنے تحفظات اور اپنی مجبوریاں رہی ہیں جو انھی کبھی ایک پلیٹ فارم پر آنے نہیں دیتے۔ اس خاص موقعے پر ایک شک یہ رہا کہ مولانا کی ایک مذہبی جماعت ہے لیکن دھرنے اور تحریک آزادی کی ڈیمانڈ یہ تھی کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں۔ عام لفظوں میں تحریک اور دھرنے کا مقصد حکومت گرانا بتایا گیا۔ یہ بات عوام کے دل کو نہ لگی کہ ایک سال ہوا اور حکومت گرانے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت کا دورانیہ چار، پانچ سال ہوتا ہے لیکن مولانا لگ بھگ ایک سال ہی میں حکومت گرانے کی بات کر رہے تھے، جو عوام کو عجیب لگ رہی تھی، دوسری بات یہ تھی کہ اس حکومت کے دوران مہنگائی کے علاوہ عوام کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا نہ تھا۔
یہ وہ حقائق تھے جو عوام اور سیاسی جماعتوں کو متاثر نہ کر سکے اور مولانا کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس حوالے سے ایک بڑا فیکٹر یہ تھا کہ مولانا نے جتنا بڑا ہجوم جمع کیا تھا جو ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں افراد پر مشتمل تھا۔ عوام اور خواص کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ اتنے بڑے ہجوم پر کروڑوں روپے کون خرچ کر رہا ہے اور کیوں خرچ کر رہا ہے؟ ان وسوسوں نے بھی تحریک میں کھنڈت ڈالی۔
خرابی کی جڑ کہاں ہے یہ "سب" جانتے ہیں۔ لیکن اس خرابی کو دورکرنے میں سب "بخل" کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بخل کا مظاہرہ اس لیے کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے اس "خرابی" کے حصے دار ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے عوام بزدل ہیں، ورنہ آج ذرا دنیا پر نظر ڈالیں ہر طرف عوام کرپشن کے خلاف پر تشدد احتجاج کر رہے ہیں۔ کرپشن تاریخ میں پہلی بار ایک سماجی اور سیاسی برائی بن کر عوام میں آئی ہے اور عوام اس حوالے سے اپنا کچا پکا غصہ اتار رہے ہیں۔ کرپٹ مافیا کے ہاتھ پیر اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ اس کا ایک پیر ایشیا میں ہوتا ہے تو دوسرا یورپ میں، ایک ہاتھ امریکا میں ہوتا ہے تو دوسرا افریقہ میں، بڑے محلوں اور پلازوں سے لے کر جھونپڑیوں تک اس کے کارندے پھیلے ہوئے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ جو ادارے اس کی سرکوبی کے لیے بنائے گئے ہیں وہ ادارے اس کا تحفظ کر رہے ہیں، قانون اور انصاف اندھے، بہرے اورگونگے بنے بیٹھے ہیں، حکومتیں، جی ہاں منتخب حکومتیں، کرپشن کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہیں۔ اس ماحول میں دنیا بھر میں کرپشن کا بول بالا نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟ بدقسمتی سے اس بدبخت کرپشن کا ٹھکانہ سیاست ہے، کرپشن یہیں پیدا ہوتی ہے بڑا ہوتی اور اپنی کارکردگی دکھاتی ہے اس بلا کی وجہ سب سے زیادہ نقصان غریب طبقات کا ہو رہا ہے وہ روٹی کے لیے محتاج ہو گئے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں انسانوں کی آمدنی نسبتاً زیادہ ہے لہٰذا وہ بھوکا نہیں رہتا لیکن پسماندہ ملکوں میں ہر طرف غربت کا بسیرا ہے لہٰذا غریب ملکوں میں بھوک، بیماری عام ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جن اداروں کی ذمے داری کرپشن کا خاتمہ ہے وہ ادارے کرپشن کو بڑے پیار سے پال رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کرپشن مندر، مسجد، گرجا، ہر جگہ اپنے پیر پھیلائے ہوئے ہے جب صورتحال یہ ہو تو کرپشن کو ختم کرنے کی ذمے داری کس کے سر ہے، کرپشن کو ختم کرنے کے مشورے عموماً مہا کرپٹ حضرات دیتے ہیں چونکہ اس کا نیٹ ورک بہت بڑا ہے لہٰذا کرپٹ قیادت کو اپنا نیٹ ورک چلانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں سزائیں بھی ہوتی ہیں، یہ اسکرپٹ دیکھنا ہو تو ہمارے میاں صاحب سے اچھا کیس نہیں مل سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قانون اور قانون پر عملدرآمد کرنے(کرانے) والے اتنے رحم دل ہیں کہ سزا یافتہ شخص کو گھر جانے اور رات گزار کر واپس آنے کی سہولت تک بھی موجود ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ لمبی چھٹیاں بھی ملتی ہیں۔ اس قسم کے حالات میں اگر کوئی امید کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن ختم ہو جائے گی تو وہ اگر بے وقوف نہیں تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔