Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mehangai Maar Gayi (1)

Mehangai Maar Gayi (1)

مہنگائی غربت اور بے روزگاری کی وجہ دنیا کے کئی ملکوں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق عراق میں بھی مہنگائی بے روزگاری کے خلاف پرتشدد احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس پرتشدد احتجاج میں 30 سے زیادہ جانیں ضایع ہوچکی ہیں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مہنگائی بے روزگاری سرمایہ دارانہ نظام کے عطیات ہیں اور جب تک یہ نظام باقی ہے، مہنگائی بے روزگاری باقی رہیں گے۔ پاکستان کے عوام کے صبر کی داد دینی چاہیے کہ سبزیاں جو دو تین روپے کلو ملتی تھیں، اب سو ڈیڑھ سو روپے کلو مل رہی ہیں، یہ صورتحال ہر اس ملک خاص طور پر پسماندہ ملک میں ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں ان مظالم کے خلاف جو پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں، وہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہو رہے ہیں، حیرت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے روایتی مخالفین جانے کہاں کمبل اوڑھے سو رہے ہیں اگر یہ روایتی سرمایہ دارانہ نظام کے دشمن آج "زندہ" ہوتے تو ساری دنیا کے عوام اس کے جھنڈے تلے متحد نظر آتے اور دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوجاتا لیکن یہ عناصر کامریڈ کے دور میں اس طرح کھوئے ہوئے ہیں کہ زمینی حقائق ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔

دنیا میں مہنگائی بے روزگاری کے عفریت کے خلاف میڈیا کے صفحات بھرے ہوئے ہیں اور ہمارے ملک کے میڈیا کا عالم یہ ہے کہ وہ ہمارے ظل الٰہیوں کی بیماریوں کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان بیماریوں کے حوالوں سے اشرافیہ خوب فائدے اور مراعات حاصل کر رہی ہے۔ ہمارے ملک کے 22 کروڑ عوام سو روپے کلو پیاز خرید رہے ہیں اور انھی قیمتوں پر دوسری سبزیاں خرید رہے ہیں اور ہمارے مولوی حضرات حکومت گرانے کی مہم پر جٹے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہوا ہے لیکن یہ سب حکومت گراؤ مہم چلانے والوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔

72 سالوں سے بلاشرکت غیرے اس ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی اشرافیہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے کہ اس ملک پر ایک مڈل کلاس پارٹی حکومت کر رہی ہے اور ایک سر پھرا مڈل کلاسر وزیر اعظم بنا اشرافیہ کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا اہم مسئلہ مہنگائی نہیں جس سے 22کروڑ غریب عوام متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ایک سیاستدان کی بیماری ہے۔ سارا میڈیا انھی خبروں کی جزیات سے بھرا ہوا ہے، مہنگائی اور ڈینگی سے کتنے گھرانے اجڑ رہے ہیں اس کے اعداد و شمار پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

نئی عمران حکومت بلاشبہ ماضی کی دس سالہ حکومتوں کی چھوڑی ہوئی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ان مشکلات سے نجات حاصل کرے لیکن قرضوں کا جو بوجھ چھوڑا گیا ہے وہ اس قدر وزنی اور پھیلا ہوا ہے کہ عمران حکومت اس سے سنبھل نہیں پا رہی ہے۔ یہ عمران حکومت کی کمزوری کم مجبوری زیادہ ہے۔ مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو غریب طبقات کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو شاید عوام اب تک سڑکوں پر آچکے ہوتے، عمران حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اتنی شدید مہنگائی میں بھی عوام سڑکوں پر نہیں آئے، اس کی دو وجہ ہیں ایک یہ کہ عمران حکومت کو اقتدار میں آئے اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے۔

عمران حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام ہماری محترم اپوزیشن نہ لگا سکی۔ یہ عمران حکومت کی ایسی کارکردگی ہے کہ عوام اس کارکردگی کے بدلے مہنگائی کے عذاب کو سہہ رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ حکومت کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ایک بھی ثبوت ملتا تو ہماری محترم اپوزیشن قیامت سر پر اٹھا لیتی۔ عوام کی خاموشی اور صبر کی دوسری وجہ اپوزیشن کے آوے کے آوے کا کرپشن کے الزامات کی زد میں آنا ہے، اپوزیشن پر کرپشن وہ بھی بھاری کرپشن کے اتنے الزامات ہیں کہ ان الزامات نے عوام کو اپوزیشن سے بری طرح بدظن کردیا ہے۔

چونکہ بات مہنگائی کی ہو رہی ہے لہٰذا اس حوالے سے اس بدنما حقیقت کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ایسی ناگزیر برائی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہوگا وہاں یہ برائی کم یا زیادہ کے فرق سے لازماً موجود رہے گی، اور پسماندہ ملکوں میں تو یہ عوام کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ یہ بیماری کم زیادہ کے فرق سے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کا اب تک کوئی شافی اور حتمی علاج نہیں ڈھونڈا جاسکا۔ آج عالمی سطح پر اس بیماری کے خلاف جو پرتشدد احتجاج ہو رہے ہیں وہ عوام کی مایوسی کا لازمی نتیجہ ہیں۔

ہماری محترم اپوزیشن نے اس مسئلے پر عوام کو سڑکوں پر لانے کی بہت کوشش کی لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے حالانکہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بلاشبہ عوام اس حوالے سے غیر معمولی صبر و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، وہ بھی مہنگائی جیسے ایشو پر جس سے غریبوں کا ہر گھر متاثر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے بھلا اس مہنگائی کا کیا نوٹس لیں گے جس نظام میں دنیا میں ہر روز دو لاکھ انسان صرف بھوک سے مر جاتے ہیں۔