آزاد کشمیر کے انتخابات ہوگئے ہیں، تجزیہ نگار مسلم لیگ ن کے جلسوں میں ہجوم کو دیکھ کر جو اندازے لگا رہے تھے، وہ عملی روپ نہیں دھار سکے، انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو 25 سیٹیں ملیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کو صرف 6 سیٹیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بلاشبہ تقریر کے فن کا خوب استعمال بھی کیا۔
یہ درست ہے کہ جذباتی تقریریں انسانوں کو مشتعل ضرور کرتی ہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بڑے کراؤڈ کو دیکھ کر ہر لیڈر جذباتی ہو جاتا اور پرجوش لب و لہجہ اختیار کرتا ہے۔
پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے یہاں عوام میں ابھی طبقاتی شعور نہیں ہے وہ عام طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں اور حقائق کی دنیا سے دور ہو جاتے ہیں۔ عوام میں شعور پیدا کرنا ہر سیاسی جماعت کی قیادت کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن ہماری قیادت کو ہمیشہ اپنے مفاد کا خیال رہا ہے نتیجہ یہ رہا کہ عوام حقائق کی دنیا سے دور رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 72 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک عوام حقائق کا اندازہ نہیں کر پائے ہمارے ملک پر چند خاندان حکومت کر تے رہے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، جمہوریت کا تعلق ہرگز خاندانی حکمرانی سے نہیں ہوتا جس جمہوریت میں عوام بالاتر نہ ہوں اسے کسی حال میں جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت رہی ہی نہیں جمہوریت کے نام پر چند خاندان حکومت کر تے رہے اور اب بھی حالات بدلے نہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے عوام میں سے باشعور لوگوں کو آگے آنا پڑے گا، بدقسمتی یہ کہ ہمارے وہ لوگ جن پر عوام کی سیاسی تربیت کی ذمے داری ہوتی ہے وہ ضرورت کے سیلاب میں بہتے رہے۔
پاکستان کی دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ دیہات میں رہتا ہے جہاں جاگیردارانہ نظام قائم ہے، وڈیرے شہنشاہوں کی طرح حکومت کر رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ72 سالوں میں پہلی بار مڈل کلاس کا ایک شخص حکومت میں آیا ہے۔
اپوزیشن نے پوری کوشش کی کہ حکومت کی کسی ایک کرپشن کا حوالہ دے کر حکومت کو بدنام کریں لیکن اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حکومت میں دوسری خرابیاں تو ہو سکتی ہیں لیکن حکومت کرپشن سے بہت دور ہے کیونکہ عمران خان بذات خود کرپشن کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اپنی حکومت میں کرپشن کو جلاوطن کر رکھا ہے، اس حقیقت سے عوام اچھی طرح واقف ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان باتیں کم اور کام زیادہ کے اصول پر کاربند ہیں جس سے عوام متاثر ہیں ہماری ایلیٹ کسی قیمت پر ایک مڈل کلاسر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عمران حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مڈل کلاس کا یہ بندہ اپنے اصولوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اپنی کوششوں میں ناکام ہوتی آ رہی ہے۔
عمران خان نے عوام کا اعتماد حاصل کرلیا ہے جس کی وجہ سے حکومت بہت مضبوط ہوگئی ہے جن حکومتوں کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے اس کو سازشوں کے ذریعے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی ساری طاقت اپوزیشن عمران خان کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے عوامی مفاد کے کام کرتی رہے جو اسے آنے والے الیکشن میں سہارا دے گی۔
آج دنیا کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں ہمارے پڑوس میں افغانستان انتشار کا شکار ہے جس کے اثرات لازمی طور پر پاکستان پر پڑیں گے اس حساس مسئلے کو عمران خان بڑی ہوشیاری سے ٹیکل کر رہے ہیں، عالمی حالت کے تناظر میں پاکستان کو بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، بھارت نے افغانستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جس کا تحفظ ضروری ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں پاکستان سے بھارت کا ٹکراؤ ہونا ممکن ہے۔ عمران حکومت اس حوالے سے بڑی محتاط پالیسی پر کاربند ہے، افغانستان میں بھارتی مفادات بہت گہرے ہیں اور بھارت کسی قیمت پر ان مفادات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔
بڑی طاقتیں بھی افغانستان میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں ان کے مفادات کا بھی یہ تقاضا ہے کہ افغانستان میں طالبان طاقتور نہ ہوں اس کشمکش کی وجہ سے افغانستان میں خون خرابہ جاری ہے پاکستان حکومت اب تک بڑے محتاط طریقے سے اس مسئلے کو ہینڈل کر رہی ہے لیکن حالات اس قدر نازک اور گمبھیر ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتحال کیا کروٹ لے گی، کہنا مشکل ہے لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ حکومت اس مسئلے کو بڑی دانائی سے ہینڈل کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان کا رویہ آیندہ دنوں میں کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔