دنیا میں ترقی کے لیے جمہوری معاشرے ضروری ہیں، ایسے معاشروں میں چونکہ طاقت کا توازن منتخب ارکان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس لیے منتخب ارکان بجٹ کی بھاری رقوم سے ترقی کے کام کرتے ہیں۔ ہر علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے اپنے علاقے میں تفویض کردہ کاموں کی ترقی کے ذمے دار ہوتے ہیں، ان کاموں میں مقابلے کی فضا بننے سے کام کی رفتار اور زیادہ تیز ہوتی ہے۔
اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ طاقت عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اس لیے کام میں دلچسپی اور کام کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کام میں مقابلہ کی فضا پیدا ہوتی ہے ان علاقوں میں فطری طور پر ترقی کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کا شمار ابھی تک انتہائی پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جمہوریت کے نام پر اشرافیہ برسر اقتدار رہتی ہے۔ اس کا ایک غلط اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اہل افراد کا حق مارا جاتا ہے۔ سب سے بڑی مشکل اور مجبوری یہ ہے کہ ہمارا انتخابی نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ صرف کروڑ پتی افراد ہی اس میں حصہ لے سکتے ہیں یہ سلسلہ 72 سالوں سے جاری ہے کہ انتخابی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک افراد اسمبلیوں میں پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں اور وہ لوگ جو الیکشن پر سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ بھاری منافع کے ساتھ اپنا منافع وصول کرنے میں لگ جاتے ہیں اور کرپشن کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑتا ہے جس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ دوسری بڑی لعنت اس حوالے سے یہ ہے کہ ابھی تک ہمارا ملک خاندانی حکمرانیوں سے جان نہیں چھڑا سکا ہے ملک پر چند خاندان قابض ہیں۔
دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں خاندانی حکمرانیاں موجود ہیں اس حوالے سے حکمران خاندان کی ایک اور فرد آصفہ بھٹو باضابطہ سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ وہ کشمیر میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم بات کو آگے بڑھائیں ایک اہم مسئلے پر گفتگو کریں گے اور وہ مسئلہ ہے باپ کی جگہ نانا اور دادا کے نام کا استعمال۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ملک کے صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے بھٹو ایک بڑا نام ہے۔ بلاول اصل میں بھٹو کا نواسا ہے اس پس منظر میں بلاول کے نام کے بعد زرداری کا نام ہونا چاہیے لیکن محض بھٹو کے نام کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے بلاول کے فوری بعد بھٹو کا نام استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ یا محض بھٹو کے نام سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی ایک کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھٹو کے نام کا اس طرح استعمال درست ہے؟
یہ بات ہم نے اس لیے کہی ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک کنفیوژن ہے جسے دور ہونا چاہیے۔ اہل سیاست اور اہل علم حضرات بیچ اس مسئلے کے کیا کہتے ہیں معلوم ہونا چاہیے۔ بھٹو خاندان ایک سیاسی خاندان ہے بھٹو ایک بڑے سیاسی لیڈر رہے ہیں یہ اگر بھٹو کے کوئی بیٹے ہوتے تو انھیں حق حاصل ہوتا کہ وہ اپنے نام کے بعد بھٹو کا نام استعمال کریں لیکن نواسوں، نواسیوں کو کیا بھٹو کا نام استعمال کرنے کا حق ہے؟
جس طرح ملک میں خاندانی نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے جمہوریت سے اس کا کوئی تعلق بنتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خاندانی حکمرانیوں کا یہ کلچر مضبوط ہو گیا تو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کلچر مضبوط ہو گیا ہے اگر اس مرحلے پر بھی اس نظام کو نہ روکا گیا تو پھر ملک آہستہ آہستہ سلطانی دور میں چلا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس جمہوری نظام میں خاندانی حکمرانیوں کا رواج ہے۔ اس حوالے سے دوسرا خاندان شریف خاندان ہے جو خاندانی حکمرانی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کو سیاست میں لانے والا ضیا الحق تھا، ایک آمر کی سرپرستی میں شریف خاندان حکمرانی کرتا رہا ہے اور اب اپنی دختر کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہے کیا اسے ہم جمہوریت کہہ سکتے ہیں؟
کسی پاکستانی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سیاست نہ کرے لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ باپ کی جگہ بیٹا، بیٹے کی جگہ نواسا غرض پورا خاندان اقتدار کے مزے لیتا رہے۔ پاکستان 22کروڑ انسانوں کا ملک ہے ان انسانوں میں ہزاروں شہری ایسے ہوں گے جو سوائے دولت کے ہر طرح سے حکمرانیوں کے اہل ہوں گے ان اہل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حکمرانی کے حق سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شمار شہزادوں، شہزادیوں کی موجودگی میں کیا ان اہل لوگوں کو آگے آنے کا حق مل سکتا ہے؟
بات یہ ہے کہ سینئر ترین سیاستدان محض اقتدار میں حصہ ڈالنے کے لیے اشرافیہ کے جلسوں جلوسوں میں حاضری لگوا رہے ہیں، قائد اعظم نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ یہاں خاندانی حکمرانی کا کلچر مضبوط کیا جائے کیا یہ دنیا کی کسی جمہوریت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاست اور اقتدار پر دو چار خاندان مسلط رہیں اگر یہ حاکمیت اور سیاست جمہوری قدروں کے خلاف ہے تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ اس طرز حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ مفکر دانشور ادیب شاعر معاشرتی ارتقا میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ دانشور اور ادیب اور شاعر جو جمہوریت کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں؟
لے دے کر ایک میڈیا رہ جاتا ہے جو اس حوالے سے بہت محدود کردار ادا کر رہا ہے۔ بلاشبہ میڈیا کا کام نیوز تک محدود ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں کھلم کھلا شاہانہ کلچر کا مظاہرہ کیا جارہا ہو وہاں میڈیا کو نیوز کے ساتھ مثبت ویوز بھی جو خاندانی حکمرانی کو ختم کریں عوام میں پیش کرنا پڑے گا۔ صحافی حضرات کہیں گے کہ ہمارا کام تو نیوز کی فراہمی ہے ویوز سے ہمارا تعلق نہیں ہو سکتا۔ ہر اخبار میں ویوز پیش کرنے والے موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہوہ بالکل خاموش ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نیوز تک محدود کرکے ملک اور عوام کے ساتھ بہت زیادتی کر رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب ویوز کی بہت ضرورت ہے ہم بیماری کی وجہ سے لکھنے کے پوری طرح قابل نہیں رہے ہیں۔