ہمارا معاشرہ جس طبقاتی تقسیم کا شکار ہے، اس تقسیم نے ایسے المیے جنم دیے ہیں کہ ان کا تصورکریں تو جھرجھری آجاتی ہے۔
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے اب 72سال گزر گئے ہیں۔ اس عرصے میں حکمران ایماندار اور عوام دوست ہوں تو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں حکمران لٹیرے رہے انھیں عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی ذرہ برابر فکر نہ تھی، ان کی اولین کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ دولت بنائی جائے۔
ادھر ملک کے 22 کروڑ عوام ایک ایسی عذاب ناک زندگی گزار رہے تھے کہ اس کے تصور ہی سے دل فگار ہوجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریبوں اور امیروں کی زندگی میں اتنا بڑا تفاوت کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے اس ملک پر اشرافیہ نے قبضہ کرلیا سیاست اور اقتدار کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھ لیا۔
ہمارے ملک میں دوسرے سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے ملکوں کی طرح طبقاتی نظام ہے اور طبقاتی نظام میں غریب طبقات پر جو مظالم ہوتے ہیں ان کے تصور ہی سے روح کانپتی ہے۔ ان نا انصافیوں کو ختم توکیا کیا جاسکتا ہے روکنے اورکم کرنے کی کوشش کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ سزا وجزا کا نظام معاشرے میں سخت ہو اور بلاامتیاز ہو تو انصاف کی امیدکی جاسکتی ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہمارے ملک میں سزا اور جزا کا نظام نامنصفانہ اور سخت امتیازی ہے جس کا فطری نتیجہ عوام میں ناراضگی اور اضطراب کی شکل ہی میں نکل سکتا ہے۔
ویسے تو اشرافیائی مزاج طرز رہائش اور شہنشاہی زندگی پاکستان کی پہچان بن گئی ہے لیکن حال ہی میں ہمارے سابق وزیر اعظم کے حوالے سے طبقاتی نظام کے جو نظارے دیکھے گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک نہیں بلکہ مغل امپائر ہے۔ ڈاکٹروں اور ماہرین کی ایک ٹیم 24 گھنٹے کیل کانٹے سے لیس اسپتال میں فروکش رہتی تھی۔ مریض کی دیکھ بھال کے لیے ذاتی ڈاکٹروں کے علاوہ اسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیمیں دستیاب تھیں۔ یہ سب اہتمام اس شخص کے لیے ہو رہا تھا جسے کرپشن کے الزام میں دس سال کی سزا ہوئی تھی۔
آخر کار یہ طے ہوا کہ ملک کے اندر میاں صاحب کا علاج ممکن نہیں، انھیں مغربی ملکوں میں بھیجا جائے اور نظر انتخاب لندن پر پڑی۔ ایئرایمبولینس سمیت ہر ممکنہ سہولت کا اہتمام کیا گیا۔ ایئر ایمبولینس میں وہ تمام سہولتیں فراہم کردی گئیں جو کرہ ارض پر دستیاب ہیں۔ میاں صاحب کی بیٹی بھی جیل میں ہے اور ان پر بھی کرپشن کا الزام ہے۔ میاں صاحب کے دو صاحبزادے ہیں وہ ملک سے باہر ہیں کیونکہ ان پر بھی کرپشن کا الزام ہے، میاں صاحب کے داماد ہیں وہ بھی انڈر ٹرائل ہیں ان پر بھی کرپشن کا الزام ہے، برادر خورد شہباز شریف پر بھی کرپشن کے الزام ہیں۔
طاقتور اور کمزور کے لیے الگ قانون کا تصور ٹھیک کیا جائے۔ اپیل کرتا ہوں کہ انصاف دے کر قانون پر اعتماد بحال اور ملک کو آزاد کریں۔ حکومت ہر قسم کے وسائل مہیا کرے گی۔ پچھلے دنوں کنٹینر پر جو ہوا جو جتنا بڑا سیاسی کھلاڑی تھا اتنا زیادہ شور مچا رہا تھا۔ سب سیاست ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا۔
عمران خان نے کہا کہ طاقتور اور کمزور کا تصور ٹھیک کیا جائے، اپیل کرتا ہوں کہ نظام عدل پر عوام کا اعتماد بحال کرکے ملک کو آزاد کرائیں، اس کے لیے تمام وسائل ہم فراہم کریں گے۔ وزیر اعظم نے کہا ایک شخص کو ملزم قرار دیا ہمیں اس کے حوالے سے درخواست کی گئی کہ اسے باہر بھیجا جائے۔
وفاقی کابینہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ ملک لوٹنے والوں کو باہر نہ جانے دیا جائے لیکن رحم آگیا، میں نے کابینہ سے کہا کہ جانے دو۔ ان سے سات ارب کی گارنٹی مانگی۔ شریف خاندان نے اتنا پیسہ بنایا ہوا ہے کہ وہ سات ارب کی ٹپ دے سکتا ہے۔ اس پر ڈرامے اور ایکٹنگ شروع کردی گئی۔ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کوکچھ ہوگیا تو عمران خان ذمے دار ہوگا۔ جو ہمارے عام قیدی عدم توجہی سے مر جاتے ہیں ان کا ذمے دارکون ہوگا؟
عمران خان نے ایک سوال کیا ہے جو غریب عوام علاج معالجے سے محروم ہوکر مر جاتے ہیں ان کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا اقتدار کے مزے لوٹنے والی اشرافیہ (حکمران) کے کسی فرد نے اس قسم کا سوال کیا؟ یہ ان غریبوں کو زندہ تو نہیں کرسکتا جو علاج کے بغیر مرگئے لیکن کسی حکمران کو توفیق تو ہوئی کہ ایسا ٹیڑھا سوال کرے۔ ایک مریض ہے جس کے لیے پورا پاکستان زیر و زبر ہے۔ ایک مریض ہے جس کی لاعلاج موت کی میڈیا کو خبر تک نہیں ہوتی۔ پچھلے تقریباً دو ہفتوں سے سارے چینلز پر صرف ایک شخص کی خبریں چل رہی ہیں۔ سابق دور میں غریب طبقات اس طرح لاعلاج مرتے رہے ہیں جیسے پہلے مر رہے ہیں۔ پھر میڈیا میں یہ آؤ بھگت کی وجہ کیا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان صرف مٹھی بھر اشرافیہ کا ہے باقی رہے عوام یہ لاوارث ہیں۔ اب ایک حکمران نے سوال اٹھایا عوام کا کوئی والی وارث ہے؟ یہ سوال ہماری اشرافیہ کے ذہن پر بارگراں بن گیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ "نظام عدل پر عوام کا اعتماد بحال کرکے ملک کو آزاد کرائیں۔ ہمارا ملک کسی غیر ملکی طاقت کی کالونی نہیں ہے بلکہ ملکی سامراج کے زیر قبضہ ہے جب تک اس ملکی سامراج سے آزادی حاصل نہیں ہوتی، عوام غلاموں کی زندگی گزارتے رہیں گے۔ "