ملک تین بڑی سیاسی جماعتیں، حکمران تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی تازہ دم ہو کر پھر میدان سیاست میں آگئی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاست پر اشرافیہ کا کنٹرول ہے اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں مورثیت کے اصول پر کام کر رہی ہیں۔ وہ پارٹی کی قیادت اپنے خاندان سے باہر جانے نہیں دینا چاہتیں۔ یہ خاندانی حکمرانی کا ایسا سلسلہ ہے جسے بڑے سیاسی خاندان کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ میاں نواز شریف صاحب عرصے سے لندن میں مقیم ہیں اور وہیں سے اپنی بیٹی مریم نوازکو گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک بھر میں صرف چند خاندان ہیں جنھیں اقتدار کا حق حاصل ہے، اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً ایسا نہیں ہے تو پھر چند مخصوص سیاسی خاندانوں کے علاوہکسی اور خاندان سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار آگے کیوں نہیں آتا؟ جب تک خاندانی حکمرانی کے اس طریقہ کار کو ختم نہیں کیا جاتا، ملک میں جمہوریت نہیں قائم ہوسکتی۔
ملک میں وزارت عظمیٰ کے اہل امیدوار بے شمار ہوں گے لیکن وہ کون سی وجہ ہے کہ دوسرے خاندانوں سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار آگے کیوں نہیں آتا۔ کیا اسے ہم احساس کمتری کا نام دیں یا نااہلیت کہیں بہرحال دو خاندانی نظام کا یہ بدترین نظام اب ختم ہونا چاہیے۔
اس نظام کی وجہ بے شمار اہل لوگ اسکرین سے باہر ہیں۔ ملک میں بے شمار سیاست دان ہیں جو اس منصب کے لیے بہترین آپشن ہو سکتے ہیں لیکن وہ سیاسی جماعتوں میں پچھلی صفوں میں بیٹھے اپنی کم ہمتی اور نااہلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی کھیپ میں زیادہ تر ناخواندہ یا نیم خواندہ لوگ ہیں جو برسر اقتدار بھی ہیں۔ ان نااہلوں سے سیاست مذاق بن کر رہ گئی ہے اور ہر طرف نااہل سیاستدان ہی نظر آتے ہیں، یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو جمہوریت نہیں آسکتی۔
پاکستان ایک پسماندہ بلکہ انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد آتے میں نمک کے برابر ہے جمہوریت کے حوالے سے عوام بس اتنا جانتے ہیں کہ پانچ سال میں ایک بار لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمہوریت کے حوالے سے عوام کچھ نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ دو خاندانی جمہوریت کو عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ اہل سیاستدان اگر جمہوریت سے مخلص ہوتے تو اپنی انتخابی مہم میں صرف اپنے امید وار کو ووٹ دینے کی اپیل کے بجائے عوام کو یہ بھی بتاتے کہ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہوتا ہے۔
پاکستان میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں۔ پاکستان میں کسانوں کی تعداد دیہی آبادی کا ستر فیصد ہے۔ کیا اسمبلیوں میں ان کی نمایندگی ہے۔ پاکستان میں صحافی رہتے ہیں، دانشور رہتے ہیں، مفکر رہتے ہیں ادیب اور شاعر رہتے ہیں۔ کیا اسمبلیوں میں ان کی نمایندگی ہے؟ جب ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر جمہوریت کہاں ہے؟ پانچ سال میں ایک بار صرف ووٹ دینے کے لالی پاپ کو جمہوریت کہنا جمہوری نظام سے مذاق ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک چند خاندان ملک پر حکومت کرتے رہیں گے۔
عام آدمی اپنی طاقت اور اختیارات سے واقف نہیں، اگر عام آدمی اپنی اجتماعی طاقت اور اختیارات کو پہچاننے لگے تو ملک پر دو خاندانوں کی حکومت نہ ہوتی نہ عوام پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کو جمہوریت سمجھتے۔ یہاں عوام کی اپنے نمایندوں سے صرف انتخابات کے موقع پر ہی ملاقات ہوتی ہے۔ اسی جمہوریت نے عوام کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ ہماری سیاسی اشرافیہ کو صرف دھاندلی سے انتخابات جیتنے کو جمہوریت کہتی ہے، یہ سلسلہ اب بہت دراز ہو گیا ہے، اسے اب ختم ہونا چاہیے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ سارا سال منتخب نمایندے عوام کے درمیان ہوتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ہمارے نمایندوں کی عوام سے ملاقات انتخاب کے دن ہی ہوتی ہے، چند جلسے جلوس کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس امیدوار کے انٹ شنٹ بھاشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، یہ پریکٹس برسوں سے چل رہی ہے، اگر ملک میں واقعی جمہوریت چلانا ہے تو نمایندوں کو سارا سال عوام میں رہنا چاہیے۔