پچھلے دنوں اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں کہ ایک سیاستدان نے غیر قانونی طریقے سے 26ارب روپے ملک سے باہر بھیجے، اگر کوئی مغربی ملک ہوتا تو اس حوالے سے زمین آسمان ایک کردیتا لیکن یہ پاکستان ہے جہاں عید آئی اور گزر گئی لیکن عید منائی کس طرح گئی یہ دیکھنا ہے۔
عام غریب طبقہ تو ہمیشہ کی طرح کسی قسم کے اہتمام کے بغیر ہر روز کی طرح دال روٹی کے ساتھ ہی عید مناتا ہے بلکہ بہت سارے گھروں میں فاقے اس لیے ہوئے کہ عید کی ان چھٹیوں میں مزدور طبقہ اجرت سے محروم رہا اور روزانہ کی اجرت ہی مزدور طبقے کی روٹی کا ذریعہ ہے۔
ایک طرف لاکھوں انسانوں کی عید کا یہ حال رہا، دوسری طرف آٹھ تا دس لاکھ کے جانور خریدے گئے، ہمارے ایک وفاقی وزیرصاحب نے تین اونٹ خرید کر قربانی کا اہتمام کیا ویسے تو وہ ہر سال اونٹ ہی کی قربانی کرتے ہیں اس بار عام طرز سے ہٹ کر ایک نہ دو تین اونٹوں کی قربانی کی۔ ان تین اونٹوں کی قربانی سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ وہ بھی اب مالدار ہو گیا ہے۔ خواہ اُن کے ان تین اونٹوں کے پیچھے کیا مقاصد تھے، لیکن عام تاثر یہی گیا کہ وہ اشرافیہ کے طبقے میں شامل ہو گیا ہے جو اُن جیسے عوامی وزیر کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔
اس قسم کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ اخبارات میں اشرافیہ کی اربوں روپے کی کرپشن کی خبریں چھپتی ہیں اور اخبار ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے اس کا کوئی نوٹس کوئی ادارہ نہیں لیتا۔ ایسے ملک میں 26 ارب کی منی لانڈرنگ بھلا کیا اہمیت رکھ سکتی ہے پچھلے دس سالوں میں اربوں نہیں، کھربوں کی کرپشن کی خبریں میڈیا میں آتی رہیں، اس حوالے سے یہ دلچسپ خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہیں کہ اشرافیہ نے بوجوہ لاکھوں روپے غریب اور مزدور ٹائپ عوام کے اکاؤنٹس میں منتقل کیے۔
یہ ہے اشرافیہ کی بے پناہ لوٹ مار کی وہ داستانیں جسے ہمارا میڈیا منظر عام پر لاتا رہا لیکن کسی متعلقہ ادارے نے اس کا نوٹس نہ لیا، کیونکہ نیچے سے اوپر تک ایک طاقتور مافیا بیٹھا ہوا ہے جو وہی کرتا اور کراتا ہے جو اشرافیہ کے مفاد میں ہوتا ہے۔ نیب بھی ایک تحقیقاتی ادارہ ہے نیب نے عام ڈگر سے ہٹ کر اشرافیہ کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں جس کے خلاف اشرافیہ نے محاذ بنا کر مطالبہ کیا کہ نیب کو ختم کردیا جائے اور اتنا شدید پروپیگنڈا نیب کے خلاف کیا کہ انسان حیران رہ جائے یہ ہے وہ صورتحال جس کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ حقائق جو میڈیا میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتے ہیں وہ سین سے اس طرح غائب ہو جاتے ہیں کہ اس سے ہماری کرپٹ مافیا کی طاقت کا ہی اندازہ نہیں ہوتا بلکہ ان اداروں کو بھی بے لباس کردیتا ہے جن کا کام کرپشن کو روکنا ہے اگر یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک پر اشرافیہ مافیا کا راج ہے وہ جو چاہے جس کے حق میں چاہے حمایت یا مخالفت کا ڈنڈا لے کر کھڑا ہو سکتا ہے اور بے چارہ قانون اور انصاف منہ دیکھتا کھڑا رہ جاتا ہے۔
ہماری گفتگو کا آغاز ایک وفاقی وزیر کے تین اونٹوں کی خریداری سے ہوا تھا، ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ کابینہ کا غریب ممبر ہے اس پبلسٹی کے پس منظر میں تین اونٹوں کی خریداری عوام کے لیے حیرت کا مقام ہے، اصل میں ہماری اشرافیہ اس قسم کے کام عام آدمی کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کرتی ہے جس سے عوام پر اس کی بڑائی کا رعب رہ سکے۔ ورنہ اشرافیہ اگر چاہے تو تین سو اونٹ خرید کر قربانی کرسکتی ہے عام آدمی عام دنوں کی طرح عید کے دن بھی ہمیشہ کی طرح گزارتا ہے بلکہ عید کی چھٹیاں اس کے لیے عذاب بن کر آتی ہیں کہ ہزاروں دھیاڑی دار چھٹیوں میں اجرتوں سے محروم ہوتے ہیں۔