پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقاتی اداروں کا قحط رہا ہے، جو ادارے تھے وہ کرپشن میں شیر و شکر بنے ہوئے تھے۔ پہلی بار اس حوالے سے جو ادارہ قائم ہوا وہ نیب تھا، اس ادارے کی کارکردگی کے آغاز سے شرفا کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی، بہت کم عرصے میں نیب نے کرپٹ اور بددیانت افراد سے 8 ارب سے زیادہ رقم برآمد کرلی جو بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کی کرپشن کا حصہ تھی۔ کرپٹ ایلیمنٹ چیخ اٹھا کہ یا تو نیب رہے گا یا پاکستان۔ دونوں کا ایک ساتھ گزارا ممکن نہیں۔ کرپٹ ایلیمنٹ نے اس حوالے سے باضابطہ مہم چلائی کہ نیب کو فوری ختم کیا جائے۔
لیکن پاکستان کی طاقتور لابی نے کرپٹ ایلیمنٹ کی اس پروپیگنڈے پر دھیان نہ دیا اور اپنا کام کرتے رہے ریکوری ہوتی رہی، ایلیٹ سخت فرسٹریشن کا شکار ہوتا رہا، کسی نے کہا یہ ناانصافی ہے کسی نے کہا نیب نے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ اب اس ملک میں کاروباری افراد کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہوگیا یا تو نیب رہے گا یا پاکستان۔ ان دھمکیوں کے باوجود نیب کرپٹ ایلیمنٹ کے گلوں میں رسیاں ڈال رہا ہے اورکرپٹ ایلیمنٹ سخت بے چین ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا احتسابی ادارہ ہے جو واقعی اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے اور کرپٹ افراد سے اربوں روپے برآمد کر رہا ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا تھا کہ پچھلے دس سال میں کھربوں روپے لوٹ لیے گئے۔ میڈیا اس کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے، چونکہ کرپشن کرنیوالوں کی سپورٹ میں سیاسی پہریدار کھڑے تھے لہٰذا کھلم کھلا لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا رہا اور احتسابی ادارے حرف غلط کی طرح باقی رہے جب کسی ملک میں سیاسی ادارے کرپشن کے محافظ بن جاتے ہیں تو ایسا ملک بے ایمانی میں ڈوب جاتا ہے یہی حال پاکستان کا ہوا۔
ہمارا قانونی نظام اس قدر ناکارہ ہے کہ اس حوالے یعنی کرپشن کے حوالے سے اس کی کارکردگی صفر ہے آج بھی اربوں روپوں کے لٹیرے ضمانتوں کی چادر اوڑھے ٹھاٹھ سے پھر رہے ہیں۔ لٹیروں نے جو اربوں کی دولت لوٹی ہے وہ غریب عوام کی محنت کی کمائی ہے جس ملک میں غریب، غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کا نظام ناقص ہے اور اس میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے چونکہ ایلیٹ اسمبلیوں پر بھی قابض ہے اس لیے بے فکری سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔
پسماندہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام اپنے جمہوری حقوق سے واقف نہیں دوسرے انھیں روٹی روزگار میں اس قدر پھنسا دیا گیا ہے کہ ان کا پورا وقت دو وقت کی روٹی کے حصول میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس المیہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ایلیٹ بے فکری سے عوامی دولت کو لوٹتی رہتی ہے۔ اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صحیح احتساب ہو رہا ہے کرپٹ ایلیٹ سے اربوں روپے برآمد کیے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے اس ناگوار حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ ہمارے قانون میں اتنی لچک رکھی گئی ہے کہ ملزم عام طور پر ملزم ہی رہتا ہے مجرم نہیں بن پاتا۔
ہمارے سیاستدان عوام میں جا کر عوام کی غربت کا رونا روتے ہیں کہ کسی طرح عوام کی ہمدردیاں حاصل کریں لیکن اب عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے وہ لٹیروں کو پہچان رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی علامت ہے لیکن اس حوالے سے ایک منظم مہم کی ضرورت ہے اپنے اقتدار کے دور میں ایلیٹ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ایجنٹ بٹھا دیے وہ ایلیٹ کی ہر پریشانی میں اس کی مدد کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے اینٹی کرپشن کے اداروں میں سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سرمایہ دارانہ نظام کا کرشمہ ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے کرپشن پر ختم ہوتا ہے۔ اس نظام زر کی فطرت میں کرپشن رچا بسا ہے کرپشن کو سرمایہ دارانہ نظام سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ رشوت لوٹ مار کی ایک ایسی ترغیب ہے جو بڑے سے بڑے دولت مند سے چھوٹے سے چھوٹے کاروباری شخص تک آٹو میٹک طریقے سے پہنچ جاتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو کرپٹ پکڑے گئے ہیں وہ برسوں تک سرمایہ دارانہ نظام کی برکت سے ملزم ہی رہتے ہیں اور ضمانت کی برکت سے عام آدمی سے زیادہ پر آسائش زندگی گزارتے ہیں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ حالات کے جبر کی وجہ سے جیلوں میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں ان لوگوں کو جیلوں میں 5 اسٹار کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں یہ ہے وہ بند زندگی جو کھلی زندگی سے زیادہ پرمسرت اور آرام دہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایلیٹ جیل جانے سے اس طرح خوفزدہ نہیں ہوتی جیسے ماضی میں ہو ا کرتی تھی اور عام قیدی جیل کی صعوبتوں سے اس قدر ہراساں ہوتا ہے کہ اس کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے یہ ہے وہ فرق جو نظام کی برکت سے دیکھا جاسکتا ہے۔