کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہے۔ صوبہ سندھ اور مرکز میں ایک نہ ختم ہونے والا سیاسی چپلقش کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود سندھ اور وفاق کو مل کر چلنا ہوگا، اس حوالے سے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اختلاف کی وجہ کیا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں جو لوگ حکمرانوں میں شامل تھے انھوں نے نیچے سے اوپر تک کرپشن کا ایک ایسا سلسلہ پھیلا رکھا تھا۔ میڈیا کے مطابق پچھلی دہائیوں میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی تھی جس کی نشاندہی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن ذہنی طور پر پی ٹی آئی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں یہی وہ وجہ ہے جو سندھ اور وفاق سمیت دوسرے مسائل کا سبب بن رہی ہے عمران خان نے اسی پس منظر میں سندھ حکومت سے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاق اور سندھ کو مل کر چلنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کی یہ آفر قومی مفاد کے خلاف ہے؟ اگر نہیں ہے تو سندھ حکومت کو بلا تکلف اور بغیر پس و پیش کے عمران خان کی آفر کو قبول کرلینا چاہیے۔ یہ مسئلہ نہ عمران خان کا ہے نہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا ہے۔ یہ مسئلہ کراچی میں رہنے والے دو کروڑ سے زیادہ غریب عوام کا ہے اور اسی تناظر میں اس مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس کے بارے میں دنیا کے ملکوں کو مختلف خدشات لاحق ہے ان مشکل حالات میں اگر وفاق اور سندھ لڑتے رہے تو بیرونی طاقتوں کو پاکستان میں مختلف حوالوں سے مداخلت کی آسانیاں فراہم ہو جائیں گی۔ افغانستان ابھی ابھی امریکی تسلط سے آزاد ہوا ہے ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے اسے تسلیم بھی نہیں کیا، ایسے مخدوش حالات میں اگر مرکز اور سندھ میں اختلافات جاری رہتے ہیں تو اس کا فائدہ بھارت اور سامراجی ملکوں کو ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کراچی سارے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری لاسکتا ہے یہ غلط نہیں ہے لیکن ملک میں امن و امان کی صورتحال وفاق اور صوبے میں بہتر تعلقات ضروری ہیں۔ مراد علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی ذمے داری ہے کہ وہ کراچی کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وفاق سے مل کر کراچی کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
پانی کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ K-4 منصوبے کے تحت پانی کا مسئلہ دو سال میں حل کرلیا جائے گا عمران خان نے یہ بات کراچی سرکولر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہی۔ پچھلی حکومتوں نے جن اہم مسائل کو نظرانداز کیا تھا ان میں K-4 اور سرکولر ریلوے بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ بنڈل آئی لینڈ سے سب کو فائدہ ہوگا اس پر وزیر اعلیٰ سندھ کو غور کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم کے ارشادات بہت بجا ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن ہر قیمت پر موجودہ حکومت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اس حوالے سے دس سال کی لوٹ مار کا حساب دیے بغیر سابقہ صرف اور صرف حکومت کو گرانے کی بات کر رہی ہے جب کہ تاریخ میں پہلی بار ملک ٹریک پر آ رہا ہے ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اپوزیشن حکومت کو سپورٹ کرتی یا مزید دو سال انتظار کرتی، لیکن وہ فوری طور پرحکومت کو گرانا چاہتی ہے جو کسی طرح بھی قانون اور آئین کے مطابق نہیں ہے۔
اس قسم کے مطالبات سے ملک میں افراتفری کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ حکومت نے مختلف شعبوں میں ترقیاتی کام منصوبہ بندی کے ساتھ زور شور سے شروع کر رکھے ہیں جن کے بہتر نتائج آنے شروع ہوئے ہیں۔
مرکزی حکومت کی سب سے بڑی کمزوری یا مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی غیر ذمے داری کی وجہ سے اب تک مہنگائی پر قابو نہیں پاسکی جو اس حکومت کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے۔ پی ڈی ایم نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا، لیکن عوام کو اپنے قریب لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
صورت حال یہ ہے کہ ان کے جلسے جلوس ابھی کوئی تبدیلی نہیں لا رہے ہیں جس کا پی ڈی ایم کو شدت سے احساس ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاستدانوں اور حکمران طبقہ میں لوٹ مار کے ان واقعات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عدالتوں میں پی ڈی ایم کے خلاف کیسز کی شنوائی کا سلسلہ جاری ہے، نواز شریف لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ ہے وہ صورتحال جس میں پی ڈی ایم حکومت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔