Thursday, 05 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bare Baap Ka Bara Beta

Bare Baap Ka Bara Beta

شہنشاہِ غزل مہدی حسن کے بیٹے آصف مہدی حسن گذشتہ روز علالت کے باعث کراچی میں انتقال کر گئے۔ اُن کی وفات پر موسیقی کی دنیا میں دکھ اور صدمے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آصف مہدی بڑے باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ برصغیر جنوبی ایشیاء میں مہدی حسن کا توکوئی ثانی نہیں، اُن کی وفات سے ہونے والا خلاء شاید صدیوں بعد بھی پُر نہ ہو سکے، البتہ آصف مہدی کا تعلق بڑے گھرانے سے تھا اور مہدی حسن کا بیٹا تھا، اسی بناء پر ان کی وفات کسی صدمے سے کم نہیں۔ عمر بھی زیادہ نہیں تھی، محض 55سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے۔ مرحوم شوگر اور بلڈپریشر کے عارضے مبتلا تھے۔ 1966ء میں آصف کی پیدائش ہوئی تو مہدی حسن کا فن شہرت کی ارتقائی مراحل طے کر رہا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب مہدی حسن پر غربت کے بادل چھٹ رہے تھے، اسی بناء پر آصف مہدی کی پیدائش کو خوشی کا لمحہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

معروف سرائیکی سنگر اُستاد سجاد رسول مرحوم مہدی حسن کے شاگرد تھے، انہوں نے 30سال مہدی حسن کی شاگردی میں گزارے۔ مہدی حسن سے اُستاد سجاد رسول اور اُن کے بڑے بھائی کا تعلق پرانا تھا، مہدی حسن جب رحیم یار خان کے قصبہ شیدانی میں تھے تو شیدانی کے رہائشی اُستاد سجاد رسول کے بڑے بھائی سے اُن کی دوستی تھی اور جب مہدی حسن کو عروج ملا اور وہ شیدانی سے چلے گئے تو اُستاد سجاد رسول ان کے شاگرد بنے۔ اُن کے پاس مہدی حسن کی بہت یادیں تھیں، وہ بتاتے تھے کہ مہدی حسن نے اپنے بیٹے آصف مہدی کو 13سال کی عمر میں اپنے چاچا اُستاد غلام قادر خان سے موسیقی کی تعلیم دلوائی۔ آصف مہدی نے بہت ریاض کیا اور فن پر دسترس حاصل کی، مہدی حسن اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتے تھے اور اُن کو ایک بات کہتے تھے کہ ریاض، ریاض اور صرف ریاض۔

شیدانی کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت بڑے بڑے انقلاب آئے۔ سکھوں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کئے اور کئی مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے اور کئی خون کے دریا پھلانگ کر پاکستان پہنچے۔ ایسے ہی ایک خاندان چچہ وطنی اور بعد میں وسیب کی بستی شیدانی (ضلع رحیم یار خان) آیا۔ شیدانی میں بگن میاں کوریجہ کی کچاری لگتی تھی، کچاری میں پناہ گزین نوجوان سُر کے ساتھ بول سناتے تو وا ہ واہ ہو گئی، بگن میاں نے اُسے اپنے پاس ڈرائیور رکھ لیا، کچھ عرصہ بعد بگن میاں کا اپنا ڈرائیور تیار ہو گیا تو گمن میاں نے اُسے اپنا ڈرائیور رکھ لیا۔ نوجوان خاندان سے بچھڑ گیا۔ پردیس اور جاگیرداری نظام کے حبس زدہ ماحول میں زندگی کا وقت کاٹتا رہا، یادیں اُسے اندر ہی اندر کھاتی رہیں، اکیلی جگہ بیٹھ کر اپنی غریبی کے دکھ کے گانے بھی گاتا تھا اور روتا بھی تھا۔

ایک دن خوشامدی اور چغل خور درباری لوگوں نے چغلیاں لگا کر اُسے بگن میاں کے بیٹے کالے میاں سے بہت پٹوایا۔ اور اُس شخص نے روتے ہوئے لیاقت پور کے قصبے کنڈانی ایک آٹے کی چکی پر نوکری کرلی۔ یہاں سے نوکری چھوڑی توکراچی پھر ریڈیو لاہور چلے گئے۔ ریڈیو سے فیض احمد فیض کی غزل "گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے " گائی تو غزل کی دھوم مچ گئی۔ شیدانی کے صاحبوں اور یہاں کے درباری لوگوں میں کھسر پھسر ہونے لگی کہ " یار یہ وہی مہدی حسن تو نہیں جسے ہم نے مارا اور بے عزت کر کے یہاں سے نکالا تھا " کچھ عرصہ بعد صدر ایوب خان کے حکم پر رحیم یار خان میں نمائش تھی تو نمائش میں اعلان کیا گیا کہ "گلوں میں رنگ بھرے " گانے والا گلوکار مہدی حسن بھی آئے گا۔

موسیقی والے دن لوگوں کو سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ شیدانی کے درباری بھی گئے کہ "دیکھیں توں سہی مہدی حسن وہی تو نہیں " مہدی حسن کی آمد کا اعلان کیا گیا تو لوگوں کا اتنا رش تھا کہ ایک چیونٹی کہ گزرنے کی بھی جگہ نہ تھی، لوگ دیکھنے کے لیے دیواروں اور درختوں پر چڑھ گئے، صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے، پورے مجمعے میں بے قراری تھی، وہ شخص آ بیٹھا اور سٹیج سیکرٹری نے کہاکہ جو یہ ہیں ہمارے عظیم فنکار مہدی حسن، جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ "مہدی حسن کے منہ سے بھگوان بولتا ہے " دوسری طرف شیدانی کے درباری جنہوں نے دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھ کر کہنے لگے بھاگو یار یہ تو وہی مہدی حسن ہے جس کے ساتھ ہم نے ظلم کئے تھے۔ دنیا کا عظیم گلوکار مہدی حسن کئی سال وسیب میں زندہ رہا، سرائیکی فرفر بولتے تھے مگر افسوس کہ جاگیردارانہ سماج کی وجہ سے وہ سرائیکی سے پیاسا گیا اور سرائیکی میں زیادہ گانے نہ گائے جا سکے۔ حالانکہ وہ خواجہ فرید کا پورا دیوان گا سکتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنی بد نصیبی ہے جسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔

اُستادسجاد رسول اپنے اُستاد مہدی حسن کے بارے میں بتاتے تھے کہ وہ بہت وضعدار آدمی تھے، تلخ لہجوں کے باوجود انہوں نے شیدانی شریف کو یاد رکھا، بہت سے مواقع پر تشریف لاتے رہے اور کوریجہ صاحبان بھی کراچی جاتے تو وہ بہت تواضع کرتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مہدی حسن نے سرائیکی کے کچھ آئٹم گائے اور کمال کر دیا، وہ درد مند آدمی تھے، ایک دن میں کافی کے بول گنگنا رہاتھا "گزر گئی گزران، غم دے سانگ رلیُوسے، ڈٖٹھڑا حال جہان پلڑے کجھ نہ پیوُسے"میں نے دیکھا کہ اُستاد کی آنکھوں میں آنسو ہیں، وہ رو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کمال ہے کہ معنویت سے بھرپور شاعری اور دلگداز موسیقی کے ساتھ سرائیکی زبان کی مٹھاس کا کوئی جواب نہیں۔ اُستاد سجاد رسول نے زندگی کا ایک حصہ ہمارے ساتھ جھوک میں گزارا، اُن کے پاس یادوں کا ایک جہان آبادتھا، میں نے اُن کو کئی مرتبہ کہاکہ ان یادوں کو قلمبند کرا دیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔

آج ہم آصف مہدی حسن اور اُن کے والد مہد ی حسن کی یادوں کو تازہ کر رہے ہیں تو اپنے قارئین کے لیے یہ بھی عرض کروں کہ آصف مہدی حسن نے اندرون ملک کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ہمراہ دیگر ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہر ہ کیا اور لاس اینجلس میں ہونے والے موسیقی کے شو میں آپ نے کمال کر دیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ 2009ء میں اُن کو نگار فلم ایوار ڈ بھی ملا۔ وہ بہت اچھے پلے بیک سنگر بھی تھے۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی ہمیشہ یادرکھے جائیں گے اور جس طرح بابا بلھے شاہ نے کہاہے کہ "بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور "۔