Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jis Khait Se Dehkan Ko Muyassar Na Ho Rozi

Jis Khait Se Dehkan Ko Muyassar Na Ho Rozi

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ " جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو "، آٹے کا بحران پورے ملک میں موجود ہے مگر زرعی ریجن سرائیکی وسیب میں اس کی موجودگی حیران کن ہے۔ آٹے کے بحران کی وجوہات کیا ہیں، اس سلسلے میں سب سے بڑی وجہ حکومت کی نا اہلی ہے۔ حکومت نے 1400 روپے من کے حساب سے گندم خرید کر لی ہے، مگر فلور ملوں کو سپلائی ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔ اس مرتبہ حکومت کو گندم خرید کرنے کا اتنا جنون چڑھا کہ کاشتکاروں کے پاس " پھکا " نہ رہنے دیا۔ جس کی وجہ سے منڈی میں گندم کی کمی پیدا ہوئی، کمی کی وجہ سے گندم کے بحران نے جنم لیا۔ اسٹاکسٹ نے یقینا اپنا کام دکھایا۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہم فلور ملوں کو گندم فراہم کریں گے مگر ابھی تک گندم کی فراہمی کا طریقہ کار طے نہیں ہو سکا۔ حکومت کے پاس گزشتہ سال کی گندم بھی موجود ہے، پچھلے سال حکومت نے 1300 روپے گندم خرید کر کے فلور ملوں کو 1375 روپے میں فروخت کی، اب کہا جا رہاہے کہ فلور ملوں کے لئے 1500 یا 1600 کا ریٹ نکلے گا۔ مگر ریٹ نکلنے تک عام آدمی کا کچومر نکل گیا ہے۔

یوٹیلیٹی سٹورز کو بہت سی مراعات دینے کے باوجود آٹے کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز سے بہت کم شہری خریداری کرتے ہیں، دیہات والوں کو یوٹیلیٹی سٹور نام کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ملک کی مجموعی آبادی کا ایک فیصد اشیائے ضرورت خرید نہیں کرتا تو ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے؟ یوٹیلیٹی سٹور ہو یا کوئی اور سبسڈی، یہ کہاں سے آتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ہیں جو کہ بالواسطہ طاقتور بیورو کریسی اور ارب پتی صنعت کاروں و سرمایہ داروں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ آٹے کے بحران میں حکومت کی سستی اور غفلت تو موجود ہے مگر فلور مل مالکان کی بد نیتی ہر جگہ موجود ہوتی ہے، یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آٹے کا بحران ان سرمایہ دار مل مالکان کا پیدا کردہ ہے جو کہ جن کو غریب عوام کا "خون چوسنے کے صلے " میں حکومت کی طرف سے سبسڈی اور ریلیف پیکجز دیئے جاتے ہیں۔ بحران کی اصل وجہ دولت کی ہوس اور زیادہ سے زیادہ منافع کا لالچ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فلور مل مالکان ایک تہائی سے زائد منافع کے چکر میں عام آدمی کا کچومر نکال رہے ہیں۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ فلور مل مالکان جو گندم ملے اس تمام کا ایک ہی طرح کا آٹا بنائیں مگر فلور مل مالکان اسی گندم سے میدہ اور سوجی بھی نکالتے ہیں اور سفید آٹا بھی بناتے ہیں۔ باقی پیچھے جو کچھ بچتا ہے وہ 20 کلو کا تھیلا 1100روپے سے زائد فروخت کرتے ہیں مگر ستم یہ کہ آٹے کے تمام خواص نکالنے کے باوجود جو " پھوگ" باقی بچ جاتا ہے، وہ بھی غریبوں کو نہیں مل رہا۔

حکومت کے ساتھ ساتھ فلور ملز ایسوسی ایشن کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کے غریب لوگ ستائے ہوئے ضرور ہیں مگر بیوقوف نہیں۔ فلور ملز ایسوسی ایشن سے سوال ہے کہ جس سفید آٹے کو " فائن آٹا" کا نام دے کر 2400 روپے تک فروخت کیا جا رہا ہے، کیا یہ اسی گندم کا نہیں جو آپ 1400روپے فی من کے حساب سے لے رہے ہیں؟ اور بچ جانے والے روٹی کے ٹکڑے اور خراب گندم تک شامل کر دی جاتی ہے۔ آج گھر اجڑ رہے ہیں اور ہسپتال آباد ہو رہے ہیں، کیا کبھی حکومت اور فلور ملز ایسوسی ایشن نے اس کی وجوہات پر غور کیا؟ فلور ملز ایسوسی ایشن والے یا دوسرے سماج دشمن عناصر جو کچھ کر رہے ہیں، اس میں محکمہ خوراک کے افسران پوری طرح ملوث ہیں۔ انسپکٹر فوڈ سے لیکر ڈی جی فوڈ تک سب فلور مل مالکان سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی ملی بھگت اور چشم پوشی سے ہی غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ جو لوگ آٹا افغانستان وغیرہمیں اسمگل کرتے ہیں وہ بھی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ دیانت داری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں خوراک کی کوئی کمی نہیں، مجھے یاد ہے کہ 2010ء میں سیلاب آیا، وسیب کے 10 اضلاع متاثر ہوئے، اس سیلاب میں سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوئی اور جب سیلاب کا پانی خشک ہوا تو اس کے تعفن سے بیماریاں پھیلیں اور حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے خراب ہونے والی گندم کے گودام صاف کرائے۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت نے گندم ضائع کر دی غریبوں کو نہ دی۔ اس جرم کا کون حساب دیگا؟ آج کا سوال یہ ہے کہ وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہوئے ہیں مگر غریبوں کے پیٹ خالی ہیں؟

ریاست مدینہ میں امیر المومنین حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ دریائے فرات پر کتا بھوکا مر جائے تو اس کا ذمہ دار ہوں، آج کی ریاست مدینہ کے دعوے داروں کو آنکھ کھولنی چاہئے کہ جانور تو کیا انسان بھوک مر رہے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں آٹے کے بحران پر حیرانگی ہے کہ سرائیکی خطہ گندم کا مرکز ہے، سرائیکی وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہیں مگر غریب کا پیٹ خالی ہے، وہ دو وقت کی روٹی کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ ایسے ہی موقع پر سرائیکی شاعر قیس فریدی نے کہا تھا " ساری دھرتی کے کھیت جیں رادھن، اوندے گھر دا اناج کیڈے گیا "۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ حکومت گندم کی خریداری کیلئے کاشتکاروں کو سبسڈی دیتی ہے، یہ کیسی سبسڈی ہے کہ گندم 1400 روپے میں خریدی گئی اور آج اسی غریب کاشتکار کو 2000 روپ میں بھی دستیاب نہیں۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں کوئی میگا کرپشن نہیں کی گئی، ہم مان لیتے ہیں مگر غریب کی سابقہ ادوار میں حالت بد تھی تو آج بد ترین ہو چکی ہے۔ یہ بھی اندازِ حکمرانی ہے کہ غریب جرم کرتا ہے تو اس کو جیلوں سے نکال کر ماورائے عدالت قتل کرا دیا جاتا ہے، شہباز شریف دور میں یہ پریکٹس عام تھی مگر امیر جرم کرے تو اسے صلے دیئے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں حکومت پاکستان نے نوٹیفکیشن جاری کیا کہ بلڈنگ کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والے کالے دھن کے حامل شخص سے کوئی پوچھ گجھ نہیں کی جائے گی۔ کیا اس کا نام انصاف ہے؟