امریکا کے افغانستان سے فوجی انخلا اور طالبان سے مصالحت میں چین کا بڑا اہم کردار ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار افغانستان چین کے زیر اثر جا رہا ہے اس سے چین کوا سٹرٹیجک فائدہ ہوگا کہ اس کے مسلم صوبے میں جو شورش جاری ہے اسے افغانستان سے مدد نہیں مل سکے گی۔
اس طرح شدت پسند عناصر غیر موثر ہو جائیں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے انخلاء کی جلدی میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اگلے سال نومبر میں ہونے والے الیکشن میں اپنی کامیابی یقینی بنا سکیں۔ امریکی افواج کے متوقع جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ملی (Milley )جن کو ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں کی حمایت حاصل ہے نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج کا افغانستان سے فوری انخلا اسٹرٹیجک غلطی ہوگی۔
بھارتی تجزیہ نگار اس بارے میں بہت پریشان ہیں کہ افغانستان میں ایک اسلامی ریاست قائم ہونے جارہی ہے۔ جسے وہ بھارت کی شکست اور پاکستان کی شاندار فتح قرار دیتے ہیں۔ جس کے مستقبل میں انتہائی گہرے اسٹرٹیجک اثرات پاکستان کے حق میں مرتب ہوں گے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی قوتیں امریکا، روس، چین سب پاکستان کی مدد سے افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ حال ہی میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ان تینوں عالمی قوتوں نے کانفرنس منعقد کی جس میں پاکستان کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ پاکستان کی عالمی سطح اور خطے میں یہ غیر معمولی کامیابی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء اور مستقبل میں پائیدار امن کا سارا دارومدار اب پاکستان پر ہے۔
اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکا انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ بلا شک و شبہ یہ آرمی چیف کی تاریخ ساز کامیابی ہے۔ اب جنرل قمر جاوید باوجوہ خطے میں امن کے لیے عالمی ضرورت بن گئے ہیں۔ نومبر میں کیا ہونے والا ہے اس کے لیے اب کسی پیشن گوئی کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جب آج سے چالیس سال پہلے امریکا کو افغان جنگ میں پاکستان کی ضرورت تھی۔
لیکن ماضی میں افغان جنگ میں شمولیت پاکستان کے لیے صرف تباہی اور بربادی کا باعث بنی۔ جب کہ فائدے میں صرف اور صرف امریکا رہا، آج پھر پاکستان ماضی کی طرح امریکا کی بہت بڑی کمزوری بن گیا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ اس دفعہ صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھیں، خطے میں کسی مہم جوئی میں امریکا کے مددگار نہ بنیں۔ ہمیں کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہیے جس سے خطے میں امریکا کی موجودگی تقویت پائے۔
اب اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اہمیت کے پیش نظر بھارت کے بے لچک رویے میں بھی لچک پیدا ہوجائے۔ اس کا ثبوت 12 جولائی کو اسلام آباد میں بھارت پاکستان ٹریک ٹو مذاکرات کا پہلا دور، چار سال کے طویل وقفے کے بعد منعقد ہونا ہے۔ پہلے تو چین روس کا بھارت پر دباؤ تھا پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے میں لیکن اس دباؤ میں اب امریکا بھی شامل ہوجائے گا تاکہ پاکستان یکسوئی سے افغانستان میں اپنی ذمے داریاں نبھا سکے۔ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے وہ بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کے لیے مسلسل کوشش کررہی ہے۔
اس بات پر عمران حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن تنقید کرنے والے نہیں جانتے تھے کہ یہ ایک حکمت عملی تھی کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے۔ بقول آرمی چیف امن دو ملکوں میں نہیں بلکہ خطے میں ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی پوری تاریخ میں بالا دست قوت رہی ہے۔ ماضی میں اس کی قوت اس وقت عروج پر پہنچی جب وہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی اتحادی بنی۔ اس وقت صرف امریکا ہی نہیں بلکہ یورپ یہاں تک کی پوری مغربی دنیا مل کر پاکستان کے پیچھے اپنی پوری طاقت سے کھڑی تھی۔
یہ جنگ کوئی عام جنگ نہیں تھی بلکہ اس میں سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور اس کی پوری دنیا پر بالا دستی کا فیصلہ ہونا تھا۔ یہ دو نظریوں کی جنگ تھی۔ ایک طرف سوشلسٹ نظام تھا جو غریبوں کا حامی تھا اور دوسری طرف دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار تھے۔ 1917کے روسی سوشلسٹ انقلاب نے ظالمانہ استحصالی نظام کی بالا دستی کو تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح چیلنج کیا کہ دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
لیکن سوویت یونین کے خلاف خوفناک پروپیگنڈے اور دنیا کے وسائل پر امریکی سامراجی قبضے نے آخرکار سوویت یونین کو شکست دے دی۔ لیکن یہ جنگ آج بھی جاری ہے، چاہے یہ شمالی کوریا ہو یا شام یا فلسطین یا ایران یا افغانستان سامراجی کوشش یہی ہے کہ اس بالا دستی کو لاحق ہر خطرے کا خاتمہ کردیا جائے۔ پوری دنیا کے سادہ لوح مظلوموں پر لازم ہے کہ وہ اس جنگ میں ہر اس ملک اور قوم کا ساتھ دیں جو سامراج کے خلاف کھڑا ہو۔ سامراج کی بالادستی کو چیلنج کرنا کوئی مذاق نہیں۔ سامراج اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں اب تک لاکھوں کروڑوں لوگوں کو قتل کرچکاہے۔ اگر کوئی قوم امریکی سامراج کے خلاف کھڑی ہے ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ سامراج دشمنی کا مطلب اپنے وسائل کی بازیابی، عوام کی خوشحالی، آزادی و خود مختاری ہے۔
پاکستان جس اسٹرٹیجک پوزیشن پر بیٹھا ہے یہاں بے پناہ سامراجی مفادات داؤ پر لگے ہیں۔ وہاں کونسی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت۔ ہمارے سادہ لوح دانشور جس آئیڈیل جمہوریت کے خواب دیکھ رہے ہیں نہ وہ پہلے کبھی تھی نہ آیندہ کبھی آئے گی۔ کیونکہ پاکستان عالمی قوتوں کی ضرورت ہے۔ طاقت کے نئے مراکز ابھرنے کے خطرے نے پاکستان کی اہمیت پھر سے دو چند کردی ہے۔ پاکستان میں کنٹرولڈ جمہوریت جو "عدم استحکام" لے کر آئی اس کا آغاز ایوب خان دور کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ پھر اس عدم استحکام کو دور کرنے کے لیے بڑی کوششیں کی گئیں مگر یہ عدم استحکا م بڑھتا ہی چلا گیا۔ مشرف دور میں بھی اس عدم استحکام کو دور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بات پھر نہ بنی۔ اب اچانک پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے ایک اور سنہری موقع پھر مل گیاہے۔
پاکستان ایک بار پھر اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔ اس کی مثال ایوب خان، ضیاء الحق دور سے دی جاسکتی ہے۔ مارشل لاء نہیں لگے گا، سیاسی سیٹ اپ رہے گا۔ جس میں نواز شریف، آصف زرداری کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ نیا سیاسی چہرہ چن لیا گیا ہے۔ طویل مدت کے لیے۔ چین، روس، بھارت، افغانستان، ایران اس اسٹرٹیجک گیم کے بڑے پارٹنر ہوںگے… لیکن اس کے ساتھ یاد رہے پاکستان اس دفعہ اپنی پرانی غلطیاں نہیں دہرائے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997