وزیر اعظم عمران خان سے پاکستان ہاؤس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں میں مکالمہ ہوا۔ اس موقعے پر مائیک پومپیو نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے کیپٹل ایرینا اسٹیڈیم میں آپ کا استقبال ایک راک اسٹار کی طر ح ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکن ہوں یا یورپین، کھلاڑی، گلوکار، اداکار ان کے دلوں میں بستے ہیں جب کہ سیاستدانوں کے بارے اُن کی کوئی اچھی رائے نہیں۔ جس انداز سے ایرینا میں عمران خان کا استقبال کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ اسٹیڈیم میں عمران خان کے استقبال کا منظر انتہائی حیران کن ناقابل یقین تھا وہاں موجود لوگوں کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے صرف اس کو دیکھ کر محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ حاضرین کی خوشی دیدنی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنی ذاتی کامیابی پر بھی اتنے خوش نہ ہوتے جتنے خوش وہ عمران خان کی آمد پر تھے۔ کیا عورتیں کیا لڑکیاں، بچے، جوان، بوڑھے سب اس خوشی میں مست تھے۔
پاکستانی کمیونٹی کے اس جذبے سے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان بھی متاثر ہوئیں، انھوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے پر جوش ہوں کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے اس جذبے کو پاک امریکا تعلقات کی مضبوطی کے لیے کس طرح استعمال کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پر جوش تاریخی استقبال عمران خان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے تھا۔ اُ س پاکستان کے لیے جس کو دیکھنے کے لیے پاکستانیوں کی آنکھیں پتھر اگئی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی جب وہاں پر قانون میرٹ کی بالا دستی، ریاست کی نظر میں سب برابر او رکرپشن سے پاک جمہوریت دیکھتے ہیں تو اُن کے دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش یہی کچھ ہمارے پیارے پاکستان میں بھی رائج ہو جائے۔ لیکن یہاں تو جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت، اقربا پروری رائج ہے۔ جو مزیدبرائیوں، سفارش اور رشوت کو جنم دیتی ہے۔ یہ لوگ پاکستان کی پرانی لیڈر شپ سے مایوس اپنے خواب کی تعبیر صحیح یا غلط عمران خان سے چاہتے ہیں۔
امریکی ذرایع ابلاغ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کو خوش گوار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں کو اس گفتگو میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا ایک اچھا موقع ملا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے ABC نیوز، CNS فاکس نیوز اورNBC نیوز کے تبصرہ نگاروں کا کہنا تھا کہ ملاقات میں حیرت انگیز طور پر صدر ٹرمپ کا موڈ بڑا خوشگوار تھا اور انھوں نے پاکستان کی نئی لیڈر شپ اور عوام کی بہت زیادہ تعریف کی۔ امریکی صدر اور وزیر اعظم پاکستان کی ملاقات عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں سرفہرست رہی۔ امریکی نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں امریکی صدر نے پاکستان کے ساتھ افغان امن مذاکرات میں تیزی کے لیے پاکستان کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی کوشش کی۔
امریکی اخبارنیویارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ سال ہی امریکی صدر نے پاکستان پر تنقید کے نشتر چلائے تھے لیکن پاکستانی وزیر اعظم کے دورے میں انھیں پوری شان و شوکت کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کو امریکی وزارت خارجہ کے سپرد کرنے کے بجائے اس کی اہمیت اور امریکی مفادات کے پیش نظر اسے خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ کیونکہ امریکی وزارت خارجہ اور پینٹا گون میںموثر بھارت نواز عناصر ایسے موجود ہیں جو آج بھی افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک بھارتی صحافی نے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا سے ذرا پیشتر جب امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان سے اس دورہ کے بارے میں سوال کیا تو اُس نے اپنی لاعملی ظاہر کی کہ وہ وائٹ ہاؤس سے پوچھ کر بتائے گی۔
دورہ امریکا سے چند دن پہلے یہ خبر عالمی میڈیا میں آئی تو ایسا لگا کہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ زبردستی کا دورہ ہے۔ دوسرا صدر ٹرمپ کے نزدیک اس دورے کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ یعنی اس خبر نے وزیر اعظم کے دورے سے پہلے ہی اس کی ناکامی کا تاثر دے دیا۔ عمران مخالف حلقے تو اس خبر پر خوشی سے نہال ہوگئے۔ اس موقعے پر یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم سب کو چاہیے کہ ہم حکومت مخالف ہوتے ہوئے لاشعوری طور پرکہیں ریاست مخالف رویہ نہ اپنا لیں۔ بہرحال صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی پتہ تھا کہ یہ دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے جو آخر کار ہمارے خطے کی تاریخ بدل دے گا۔ چنانچہ انھوں نے اس دورے کی اہمیت آخر وقت تک ظاہرنہیں ہونے دیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکا سے مذاکرات پر مشروط آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران امریکا سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے خبردار کیا کہ مذاکرات اس صورت میں ہوں گے جب اسے ہماری شکست نہ سمجھا جائے۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیک مپیو کا کہنا ہے کہ مذاکرات عمل کے ذریعے کشیدگی ختم کرنے کے لیے ایران جانے کو تیار ہوں۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکا میں ایران امریکا کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ جیسے ہی اُن کا دورہ امریکا ختم ہوا، ایران نے امریکا سے مشروط مذاکرات پر آمادگی کا اظہارکردیا۔
وزیر اعظم عمران خان امریکا قطر ایئرویز کے ذریعے امریکا گئے اور واپسی میں دوحہ رک کر قطری ہم منصب سے ملاقات کی جہاں تک قطر کا تعلق ہے وہ خلیج میں امریکا کا اہم اتحادی ہے، گزشتہ سال جب سعودی عرب نے قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کی تو وہاں اشیاء ضروریہ تک کی قلت پیدا ہو گئی تو ایران نے قطر کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ عرب بادشاہتوں کے برعکس قطر کے ایران کے ساتھ انتہائی دو ستانہ قریبی تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا بذریعہ قطر ایئر ویز سفر اور واپسی میں قطر ی وزیر اعظم سے ملاقات بتاتی ہے کہ پاکستان قطر کے ساتھ ملکر امریکا ایران مذاکرات کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 2017 میں تین روزہ دورہ ایران نے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے دونوں کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اب قطر پاکستان ملکر ایران امریکا تعلقات کی بہتری میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ صدر ٹرمپ پچھلے سال امریکا ایران جوہری معاہدہ منسوخ کرکے ایک بہت بڑی آزمائش میں پھنس گئے ہیں۔ ایک ایسی بند گلی میں جس کے سرے پر سوائے جنگ کے کچھ نہیں۔ بقول ٹرمپ افغانستان فتح کرنے کے لیے ایک کروڑ افراد مارے جاتے ہیں تو ایران فتح کرنے کے لیے کئی کروڑ افراد مارنے پڑیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟اس کے بعد ہوگا یہ کہ امریکا سے واحدعالمی طاقت کا وہ "اعزاز" چھن جائے گا جو دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اُس کو حاصل ہوا۔ اس کے بعد اس کی دنیا پر معاشی سیاسی سمیت ہر طرح کی برتری کا خاتمہ ہو جائے گا اور طاقت کے نئے مراکز ابھرنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ ٹرمپ نے ایران پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی لیکن آخری لمحوں میں انھی وجوہات پر اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
اب واضح آثار ہیں کہ خطے میں جنگ نہیں ہوگی لیکن اس کا کریڈٹ ایران کی استقامت کو جاتا ہے کہ اس نے گزشتہ 40 سال سے لاکھوں افراد کی قربانیوں، معاشی پابندیوں سازشوںکے باوجود امریکا کے سامنے کسی بھی صورت جھکنے سے انکار کردیا۔ اگر پاکستان امریکا کو ان دو آزمائشوں افغانستان اور ایران سے نکا ل دیتا ہے تو نہ صرف کشمیر بلکہ اُس کی معاشی سمیت تمام آزمائشیں ختم ہو جائیں گی۔
اپنے دورہ امریکا کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طالبان کو راضی کرنا آسان نہیں، کام مشکل مگر پوری کوشش کریں گے۔ اندازہ کریں اس دورے کے خاتمے کے صرف ایک دن بعد طالبان عمران خان ہی نہیں بلکہ افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر بھی آماد ہوگئے ہیں۔