آج کل افغانستان کی صورتحال پر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور عالمی طاقتیں خدشات اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ خاص کر کے طالبان کے افغانستان کے دیہی علاقوں پر قبضے اور پیش قدمیوں پرگہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے نیٹوکی فوج کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کی واپسی کا ستمبر 2021 تک تاریخ کا بھی اعلان کردیا ہے۔
اب طالبان کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر اقتدار پر اگر افغانستان میں کسی نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکا اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ ادھر جواب میں طالبان نے کہا ہے کہ عوام کی اکثریت جس کی حمایت کرے گی اسی کی حکومت قائم ہوگی۔
روس نے وسطی ایشیائی ریاستوں کی سرحدوں پر سات ہزار روسی فوج پہنچا دی ہے تاکہ کوئی مداخلت نہ ہو۔ روس نے امریکا کو وسطی ایشیائی ممالک کے فوجی اڈوں کو استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ہندوستان، افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری پر ضرب لگنے کے ممکنہ اندیشے کا برملا اظہار کر رہا ہے۔ نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔
اس نے کابل ایئرپورٹ کے تحفظ کی ذمے داری لی ہے اور سعودی عرب سے بھی تعلقات بحال کرنے میں پیش قدمی کر رہا ہے، جب کہ ترکستان نے ترکی کی سرحد پر اپنی فوج بھیجی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں جب طالبان افغانستان پر قابض ہوئے تو اس حکومت کو صرف پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا۔ اور کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ امریکا نے بھی۔
افغانستان 40 برسوں سے سامراجی جنگی اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ جب 1978 میں افغانستان میں شاہ داؤد کی بادشاہت کے دوران خلق پارٹی کے بزرگ انقلابی رہنما استاد اکبر خیبر خان کی شہادت کے بعد 30 ہزار لوگوں کا احتجاجی جلوس نکلا تو یہ جلوس بغاوت میں تبدیل ہوگیا۔ افغان فوج میں موجود انقلابیوں نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور افغان انقلابی کونسل کو اقتدار حوالے کر دیا۔
یہ انقلاب چونکہ 28 اپریل کو برپا ہوا تھا اور افغان کیلنڈر کے مطابق اپریل کو وہ ثور کہتے ہیں اس لیے یہ انقلاب "ثور انقلاب" کے نام سے مشہور ہوا۔ انقلابی کونسل نے اقتدار سنبھالتے ہی جاگیرداری ختم کرکے 30 جریب سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی، بردہ فروشی کو جرم قرار دیا، سود کے نظام کو ممنوع قرار دیا، عالمی سامراجی سرمایہ کو بحق سرکار ضبط کرلیا، گیس اور معدنیات کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ تعلیم کو سب کے لیے لازم قرار دیا۔
ساتھ ساتھ تعلیم بالغان شروع کردیا اور ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ چونکہ یہ سارے اقدامات امریکی اور مغربی سامراج کے خلاف تھے اور افغانستان ایک خودمختار اور سامراج مخالف بن گیا۔ امریکا اس بات سے خائف ہوا کہ اس قسم کے انقلابی اقدامات کے لیے کہیں پاکستان اور بھارت کے عوام بھی مطالبہ نہ کرنے لگیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام یعنی سوشل ازم کو افغانستان سے ختم کردیا جائے۔ اس کے لیے عالمی سامراج نے منصوبہ بندی کی اور کھربوں ڈالر خرچ کیے۔ پاکستانی سرزمین سے ڈالر جہاد کی ابتدا ہوئی۔ جنگی تربیت دی گئی۔ روسی فوجیں افغانستان سے جانے کے چار سال بعد تک افغان حکومت اپنے بل بوتے پر قائم رہی۔ چونکہ یہ جہاد ڈالر کا تھا اس لیے ڈالر کی تقسیم پر گروہ بندی اور تضادات ہونا لازم و ملزوم تھا۔ جب مختلف گروہ آپس میں نبرد آزما ہوئے تو طالبان سامنے آئے اور انھوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
آج 40 سال گزرنے کے بعد بھی افغانستان کے لاکھوں معصوم اور بے گناہ عوام ایران، پاکستان، ہندوستان اور تاجکستان میں دربدر ہو رہے ہیں۔ طالبان کا جب افغانستان پر قبضہ ہوا تھا تو انھوں نے لڑکیوں کے درسگاہوں میں جانے پر پابندی لگادی۔ داڑھی، برقع اور نماز کو جبراً نافذ کیا۔ حجاموں کو بے روزگار کردیا۔
ماضی کے ان تجربوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس بار طالبان اقتدار پر قابض ہوگئے تو ابتدائی جھلکیوں سے یہ خدشات نظر آرہے ہیں کہ شاید ماضی سے کم رجعتی اقدام نہیں ہوگا۔ خاص کرکے چینی سرمایہ دار نے شمالی افغانستان میں تانبے کی کان کنی کا جو ٹھیکہ لے رکھا ہے جس کی رکھوالی شمالی اتحاد کے سپرد ہے کو شدید خطرات سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ افغانستان سے گیس لائن وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے روس تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ ایران اور پاکستان کے مابین توانائی کے معاہدات میں طوالت نہ ہو۔ ہندوستان کی سرمایہ کاری منجمد ہو جائے۔
اس کے علاوہ افغانستان میں کس طرح کی حکومت قائم ہوگی۔ جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا یا نہیں، ولور کا نظام ختم ہوگا یا نہیں، سود خوری جاری رہے گی یا نہیں۔ سامراجی سرمایہ کو ضبط کیا جائے گا یا لوٹ مار کی ریل پیل جاری رہے گی۔ عوام کی خودمختار اور خود انحصار حکمرانی قائم ہوگی یا نہیں۔ حزب اختلاف کی حیثیت کس طرح متعین ہوگی۔ خواتین کو سیاسی، معاشی اور سماجی آزادی ملے گی یا نہیں۔ پاکستان پر اس کے اثرات پڑنا لازم ہے۔ اس لیے کہ اس سے قبل کے پی کے میں طالبان، داعش اور القاعدہ نے 450 لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کیا تھا۔
آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کا قتل کیا، سوات پر قبضے کے دوران وہاں کے مکینوں کی لوٹ مار کی اور دو سال تک سوات کے عوام کا جینا دوبھر کردیا تھا، خوف سے سیاحت بند ہوگئی تھی، چونکہ یہ قوتیں امریکی سامراج کی پیداوار ہیں اور طبقاتی نظام کا ناگزیر حصہ ہیں اس لیے انھیں سرمایہ داری کو سہارا دینے کے لیے ان سطحی، جارحانہ اور دکھاوے کا اسلام نافذ کرنا ضروری ہے۔
عوام کی خوشحالی کے لیے افغانستان کے محنت کشوں، دانشوروں، صحافیوں، خواتین، لڑکیوں، کسانوں اور طلبا کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ آگے آئیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ نیٹو کو دوبارہ دعوت دیں۔ امریکی سامراج کے خلاف ڈٹ جائیں، خود متحد ہوں اور پیلی جیکٹ تحریک کی طرح سارے سامراجیوں اور ان کے ایجنٹوں کو مار بھگائیں۔ ہرچند کہ افغانستان کے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کا آزاد سماج میں مضمر ہے۔