امریکا بھر میں جنرل موٹرز کے لگ بھگ پچاس ہزار ملازمین گزشتہ چھ ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ امریکا میں ہونے والی سب سے بڑی ہڑتال ہے۔ بہرحال اب جو نیا معاہدہ طے پا رہا ہے، اس میں محنت کشوں نے بہت سی فتوحات حاصل کی ہیں۔ اجرت میں اضافہ تو ہوا ہی ہے ساتھ کمپنی طبی سہولتوں میں کٹوتیاں کرنے کے فیصلے سے بھی دستبردار ہو گئی ہے۔
انتظامیہ نے اضافی بونس کے ساتھ عارضی اسٹاف کو تیزی سے مستقل کرنے اور قلیل مدت میں ان کو دیگر مستقل ملازمین کے برابر اجرت دینے کی حامی بھری ہے۔ جنرل موٹرز نے جن چار پلانٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ان میں سب سے بڑے پلانٹ میں کام جاری رکھنے پر آمادگی ظاہرکی گئی ہے۔ وہ چھوٹے پلانٹ جہاں چند سو افراد کام کر رہے تھے وہ بند کر دیے جائیں گے اور ان کے ملازمین کو دوسرے پلانٹ میں روزگار کی پیشکش کی جائے گی۔ ایک درمیانے سائز کے پلانٹ میں یا اس کے قرب و جوار میں نئے پلانٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں بنائی جائیں گی۔
جنوبی امریکا کا ملک ایکواڈور میں لینن مورینو جو کہ ترقی پسند اقدامات کا وعدہ کر کے حکومت میں آئے تھے، نے جب سامراجی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے کہنے پر دیگرکٹوتیوں کے ساتھ ساتھ دہائیوں سے چلی آ رہی مقامی آبادی کو ڈیزل پر دی جانے والی رعایت ختم کر دی تو عوام نے بھرپور احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔
یہاں تک کہ پورے ملک کا نظام ہی درہم برہم ہو گیا۔ مظاہرین نے سڑکوں کو بلاک کر دیا اور چھ تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر کے کئی روز تک ان کی پیداوار روک دی۔ ڈیزل کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہو گیا تھا۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا بلکہ پوری معیشت پر اثر انداز ہوتے ہوئے افراط زر میں بہت زیادہ اضافے کا موجب بنا تھا۔ بہرحال دو ہفتے تک جاری رہنے والے ان عوامی مظاہروں نے آخر کار حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبورکر دیا۔ حکومت اور مظاہرین کے مابین مذاکرات کے بعد ایکواڈورکی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ چار اعشاریہ دو ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔
یہ مظاہرے ایکواڈورکے آبائی لوگوں نے شروع کیے تھے۔ حکومت نے ان مظاہروں کو ختم کرنے کے لیے آنسوگیس اور اس جیسے بہت سے حربوں کا استعمال اور دو ہفتے جاری رہنے والے ان مظاہروں میں کم ازکم سات افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے اور دو ہزارگرفتاریاں عمل میں آئیں۔ لیکن ان مظالم نے عوام کوکمزور کرنے کی بجائے ان کو مزید طاقتور اور فتح سے ہمکنارکیا۔ ان مظاہروں کا کوئی لیڈر تھا اور نہ کوئی پارٹی۔
لاطینی امریکا یعنی جنوبی امریکا کا ایک اور ملک چلی ہے۔ چلی کے صدر سیاستیان نپیرا کی حکومت کی طرف سے میٹرو بسوں کے کرایوں میں چار پیسو (مقامی کرنسی) اضافے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں (جو اب بھی جاری ہے) نے سارے استحصالی نظام کے وجود کو للکارا ہے۔ چلی کے دارالحکومت سانتیاگو میں پچیس اکتوبرکے مظاہرے کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ جس میں دس لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکلے۔ اب مظاہرین صدر سیاستیان نپیرا کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کے بعد حکومت کی طرف سے کچھ معاشی رعایت کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن مظاہروں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس احتجاج میں مزدور طبقے، اساتذہ، کان کن اور ڈاک کے محنت کشوں نے بھرپور شرکت کی۔ ٹرک اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے روڈ بلاک کر دیا۔ ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے بھی شرکت کی۔ اب تک اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے، اب تک پانچ ہزار مظاہرین کو گرفتارکیا گیا۔ واضح رہے کہ چلی جنوبی امریکا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہے۔
چلی میں ہونے والے مظاہروں کی کال کسی بھی پارٹی نے نہیں دی۔ کسی بھی مظاہرے میں کسی پارٹی کا کوئی بینر یا جھنڈا موجود نہیں ہے۔ یہ مظاہرہ خالص عوامی مظاہرہ ہیں۔ ابھی تک کسی پارٹی کے کنٹرول میں نہیں ہے اور نہ کسی ٹریڈ یونین اشرافیہ کی گرفت ان پر نہیں دیکھی گئی ہے۔ لبنان میں حالیہ تحریک کا آغاز سترہ اکتوبر کو اس وقت ہوا جب وزیر اعظم سعد حریری کی مخلوط حکومت کی جانب سے تمباکو، پٹرول اور واٹس اپ کالوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویزکے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پہ نکل آئے، احتجاج کی شدت کی وجہ سے یہ مظاہرہ لاکھوں میں تبدیل ہو گیا۔
پھر عوامی دباؤ سے سعد حریری نے استعفیٰ دے دیا۔ صدر مائیکل عون نے مظاہرین سے مذاکرات کی پیشکش کو مظاہرین نے رد کر دیا۔ لبنان میں جاری معاشی مسائل، بیروزگاری اور عدم مساوات اور سرکاری بدعنوانی کے خلاف عوام کا احتجاج ہے۔ یہاں بیروزگاری چالیس فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر پنشن میں کٹوتی سمیت مستقل نوکریوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی جانب سے سعد حریری کو استعفیٰ نہ دینے کے مشورے پر مظاہرے میں مزید شدت آگئی۔ یہ مظاہرے کسی پارٹی کی جانب سے ہو رہے ہیں اور نہ اس کا کوئی لیڈر ہے۔
عراق میں کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف تین ہفتوں سے جاری عوامی احتجاج نے بندرگاہ کی ترسیلات کو بند کر دیا۔ بصرہ میں عراقی بندرگاہ کے داخلی راستے کو مظاہرین نے ایک مرتبہ پھر بند کر دیا جب کہ ملازمین اور ٹینکرز کو داخل ہونے سے روک دیا، جس کی وجہ سے بندرگاہ کے آپریشنل پچاس فیصد تک کم ہوگئے۔ اس سے قبل بندرگاہ کے دروازہ کو مظاہرین نے انتیس اکتوبر سے نو نومبر تک بند رکھا تھا۔ ام قیصر عراق کی اہم ترین خلیجی بندرگاہ ہے، یہاں اناج، تیل، چینی اور دیگر اشیا بیرون ملک سے آتی ہیں۔ اس سے ملک کو غذا حاصل ہوتی ہے۔ اکتوبر سے جاری احتجاج میں اب تک تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سول نافرمانی، جیسے ہڑتال، ٹریفک کو روکنا، بندرگاہیں یا تیل کی تنصیبات بند کرنا جیسے حربے استعمال کیے ہیں۔ یہاں وزرا کے گھروں پہ حملے ہوئے، ایرانی سفارت خانے پر حملے ہوئے، متعدد جگہوں سے ایرانی پرچم ہٹا دیے گئے۔ یہ مظاہرہ بھی پارٹی لیس اور لیڈر لیس مظاہرہ ہے۔ مظاہرین صدر اور وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔
ایران میں بھی پٹرول کی قیمت جوکہ پہلے دس ہزار ریال فی لیٹر تھا اب پندرہ ہزار ریال فی لیٹر کرنے پر عوام احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پہ نکل آئے۔ اب تک سیکیورٹی فورسزکی گولیوں سے ایک ہفتے میں ایک سو چھ مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں۔ ایک ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ یہ احتجاج قصبوں تک پہنچ گیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے پٹرول کی قیمت میں اضافے کی حمایت کرنے سے مظاہروں میں مزید شدت آئی ہے۔
اگر فرانس اور ہانگ کانگ کو جوڑ لیں تو یورپ سے مشرق بعید تک سرمایہ داری کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ ایک عرصے سے امریکا اور ایران کے محنت کش خاموش اور تذبذب کے شکار رہے۔ مگر اب وہاں بھی عوامی سیلاب سڑکوں پہ امڈ آیا ہے۔ اس بار کے احتجاج بلا پارٹی اور لیڈر کے ہو رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ پارٹیوں اور لیڈروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب دنیا ایک ہو جائے گی۔ امداد باہمی کا آزاد سماج یا کمیونسٹ نظام قائم ہو گا۔ جہاں کوئی کھرب پتی ہو گا اور نہ کوئی گدا گر۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔