Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Aloodgi Ne Insaano Ka Jeena Dobhar Kar Diya

    Aloodgi Ne Insaano Ka Jeena Dobhar Kar Diya

    دنیا بھر کے انسان آلودگی کی لپیٹ میں ہیں، وہ مسلسل بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ان کا جینا بھی دوبھر ہو گیا ہے، لیکن دنیا کے کچھ خطوں میں اچھی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بھوٹان جہاں بادشاہت ہے مگر فضا میں آلودگی نہیں ہے۔

    جنوبی امریکا کا ملک کواسٹاریکا جہاں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اس کے رقبے کا کم ازکم 25 فیصد جنگلات ہونا چاہیے۔ یہ ہدف جنوبی امریکا اور یورپ پورا کرتا ہے۔

    دنیا میں سب سے زیادہ جنگلات ویتنام اور برازیل میں ہیں یعنی تقریباً 90 فیصد، جنوبی امریکا اور یورپ میں اوسطاً 30 فیصد، ہندوستان میں 20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16فیصد جب کہ پاکستان میں 2.5 فیصد جنگلات ہیں۔ صنعتی آلودگی سب سے زیادہ امریکا میں ہے جب کہ کوئلہ کی کاربن کی آلودگی سب سے زیادہ چین میں ہے۔ کراچی میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی ہے۔ چونکہ دنیا کی خشک زمین کے مقابلے میں پانچ گنا پانی ہے اور اس کا 90 فیصد سمندر ہے۔ لہٰذا سمندر کی آلودگی بھی دنیا بھر کے عوام کے لیے انتہائی خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

    گزشتہ 50 برسوں کے دوران انسانوں نے گہرے پانیوں میں موجود حیاتیات کی اکثریت کو بالکل الٹ حالت میں تبدیل کرنے کے خطرناک حد تک پہنچا دیا ہے۔ آلودگی حد سے زیادہ ماہی گیری، مسکن کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلیاں، نہ صرف سمندروں کو آلودہ کر رہی ہیں بلکہ انھیں خالی بھی کر رہی ہے۔

    وہیل مچھلی، قطبی ریچھ، نیلے پر والی ٹونا مچھلی، سمندری کچھوؤں اور جنگلی ساحلوں کے معدوم ہونے کے امکانات بذات خود ہی بہت زیادہ باعث فکر ہونے چاہئیں۔ پورے ماحولیاتی نظام میں کسی قسم کی بھی رکاوٹ سے دراصل ہماری بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے، کیونکہ ان متنوع نظاموں کا صحت مندانہ طور پر کام کرنا ہی اس زمین پر زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔ اس سطح کی توڑ پھوڑ انسانوں کو خوراک، روزگار، صحت اور زندگی کے معیار کے لحاظ سے بہت مہنگی پڑے گی۔

    سمندروں کے مسائل آلودگی سے شروع ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے نمایاں صورت ساحلوں پر تیل اور گیس کی تلاش میں کھدائی کے دوران حادثات کی وجہ ہے ان عناصر کا تباہ کن طور پر سمندر میں گرنا ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ واقعات کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر مقامی طور پر مگر سمندری آلودگی میں ان کا مجموعی حصہ دریاؤں، پائپوں، پانی کے بہاؤ اور ہوا کے ذریعے سمندروں میں شامل ہونے والے کثیر فضلہ کے مقابلے میں پھیکا پڑ جاتا ہے۔

    مثال کے طور پر فالتو اشیا (پلاسٹک کے بیگ، بوتلیں، کین، مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات)ساحلی پانیوں میں دھوئے جاتے ہیں یا پھر بڑے چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے مارلن اور بڑی "گراؤنڈ فش" جیسے کہ کوڈ، ہالیسان اشیا کو سمندروں میں ضایع کیا جاتا ہے۔ یہ کباڑ ہو کر سمندر میں آ گرتا ہے۔

    جہاں یہ بہتے ہوئے کوڑے کے بڑے انبار بناتا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک آلودگی پھیلانے والے عناصر "کیمیا" ہیں جن کے ذریعے سمندروں کو زہریلا کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ "پارہ" جو کوئلے کے جلنے سے فضا میں شامل ہوتا ہے اور اس کے بعد بارش کے ساتھ برس کر سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں شامل ہو جاتا ہے (پارہ طبی فضلہ میں بھی پایا جاسکتا ہے) ہر سال مارکیٹ میں سیکڑوں نئے صنعتی کیمیکلز شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر تصدیق شدہ نہیں ہوتے۔ یہ کیمیکلز آہستہ آہستہ مچھلیوں اور شیل فش کے خلیوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں، اس کے نتیجے میں مچھلیوں اور دیگر جنگلی حیات میں بیماریاں اور اموات پھیل رہی ہیں۔

    ٹونا مچھلی اور سورڈ مچھلی جیسی مچھلیاں غائب ہو گئیں تو ماہی گیروں نے اپنا رخ سمندری پودے کھانے والی چھوٹی مچھلیوں والے علاقے کی طرف کرلیا۔ چھوٹی مچھلیوں کے حد سے زیادہ شکار کی وجہ سے ان بڑی مچھلیوں کی تعداد میں بھی تیزی سے کمی ہو رہی ہے جو انھیں شکار کرکے کھاتی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ آبی ممالیہ جانور اور سمندری پرندے بھی بھوکے رہ جاتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ ماہی گیر جو شکار سمندر سے باہر نکالتے ہیں ان میں سے ایک تہائی کا شکار پیداوار میں نہیں ہوتا اور بعض غیر ذمے دار ماہی گیری کرنے والے جو کچھ سمندر سے نکالتے ہیں اس کا تقریباً 80 سے 90 فیصد ضایع کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سمندروں میں کمی کی ایک اور وجہ مسکنوں کی تباہی ہے جس کی وجہ سے سمندری حیات صدیوں تک زندہ رہنے کے قابل ہوسکیں۔

    آج ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں ایسے بڑے جال جن کے بیرونی حصوں پر اسٹیل کی پلیٹوں اور بھاری رولر لگے ہوتے ہیں۔ سمندر کی تہ میں موجود پہاڑیوں پر کھینچ کر لے جاتی ہیں۔ یہ جال ایک میل سے بھی زیادہ گہرائی تک پھیلے ہوتے ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرتے جاتے ہیں۔ جب صنعتی ٹرالر اپنے راستوں کو بلڈوز کرتے ہیں تو سمندری پہاڑیوں کی سطح ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ گہرے ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والے مونگے صفحہ ہستی سے مٹائے جا رہے ہیں۔ اس عمل میں حیاتیاتی تنوع کے حامل ان منفرد جزائر سے انواع کی ایک نامعلوم تعداد جو نئی ادویات کی تیاری اور دیگر اہم معلومات کو آشکار کرسکتی ہیں کو ناپید کیا جا رہا ہے۔ نسبتاً نئے مسائل اضافی للکاروں کو ظاہر کرتے ہیں۔

    لائن فش، زیرا ملز (سیپ کا کیڑا) اور پیسفک جیلی فش جیسی حملہ آور انواع، ساحلی ماحولیاتی نظام کو تہہ و بالا کر رہی ہے اور بعض صورتوں میں پوری مچھلی گاہوں (فشریز) کے خاتمے کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔ فوجی نظام اور دیگر ذرائع کی طرف سے استعمال کیے جانے والے سونار (ریڈار نما آلہ جس سے غرقاب آب دوزوں کا پتا لگایا جاتا ہے) کے شور کی وجہ سے وہیل، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات پر تباہ کن اثرات ہوسکتے ہیں۔ جب ریاست اور سرمایہ داری نہیں تھی اس وقت آلودگی تھی اور نہ اتنی بیماریاں۔ اس لیے ٹیکنیکل اور سائنسی ترقی کو روکے بغیر دنیا کے انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا ہے۔