پہلے یہ کہاوت مخصوص ملکوں کے لیے کہی جاتی تھی، مگر اب تو نامور اور جمہوریت کے علم برداروں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا واقعہ ہواجو گزشتہ 200 برس میں رونما نہیں ہوا۔ ہزاروں لوگ ٹرمپ کی اشتعال انگیز تقریر سن کر واشنگٹن ڈی سی کے وائٹ ہاؤس میں گھس گئے۔
سینیٹ کی حلف برداری کے دوران سینیٹرزکی کٹائی کی اور سینیٹرز نے چھپ کر اپنی جان بچائی۔ بعدازاں سیکیورٹی اور قابضین کے مابین جھڑپوں میں پانچ شہری مارے گئے۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ گوروں نے امریکا پر قبضہ کرکے اور لاطینی امریکی وسائل اور اقتصادی حصہ دار بننا چاہ رہے ہیں۔ اس ساجھے داری کو روکنے کے لیے امریکا کے ارب پتی اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ یہ کام صرف امریکا میں نہیں فرانس میں بھی ہو رہا ہے۔ فرانس مغربی افریقی ممالک کے مزدوروں کو سستی مزدوری کے لیے غلام بنا کر لایا اور اب وہ شہری بن گئے ہیں۔
اس لیے وہاں بھی حکمران طبقات شہریوں اور پیداواری قوتوں کو تقسیم کرنے کے لیے اربوں یورو خرچ کررہے ہیں۔ جس میں پیلی جیکٹ تحریک (انارکسٹ) آگے نہ بڑھ پائے۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکل کر اپنی نسلی برتری اوروں پر اجاگر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ وہاں قوم پرست (نیشنل پارٹی) پر اربوں پاؤنڈ خرچ کیے جا رہے ہیں، یہی صورتحال بھارت کی ہے، چونکہ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ مودی اور اس کے ہندوتوا سوچ کے لوگوں نے محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے ہندو مسلم تضادات کھڑا کیا ہوا ہے۔
ہندوستان کے باسی خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان ہزاروں سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہندوستان میں چھ ہزار سال قبل موئن جو دڑو، ہڑپہ، مہرگڑھ اور (انڈیا) گجرات میں کمیون سماج قائم تھا۔ یہاں کی کھدائی میں کوئی مندر، محل، مقبرے نہیں ملے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہاں کوئی ہندو تھا اور نہ غیر ہندو۔ یہ سب بعدکی پیداوار ہیں۔ اب ہندوستان کی بڑھتی ہوئی محنت کشوں کی تحریک کوکمزور اور نحیف کرنے کے لیے ہندو مسلم تقسیم کرکے ہندو توا کے نام پر سرمایہ داروں کو عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے مکیش امبانی ایشیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار بن گیا ہے۔
یہی صورتحال پاکستان کی ہے، انڈیا پاکستان کی تقسیم میں 28 لاکھ انسانوں کا قتل ہوا۔ آج پاکستان میں بلوچ، سندھی اور پشتون محنت کشوں کو پنجابی محنت کشوں سے الگ کرنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ طلبا یونین کی بحالی کے لیے طلبا کا جب مال روڈ لاہور میں مظاہرہ ہوتا ہے، سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد میں مظاہرے کرتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور اساتذہ لاہور میں اور ڈاکٹرز اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے کرتے ہیں تو شہریوں، پیداواری قوتوں اور کوئلے کے کان کنان محنت کشوں کی تقسیم کرنے کی سازشوں کو چکنا چور کردیتے ہیں۔
سرمایہ دار دنیا کو سوئیڈن پر بڑا فخرتھا کہ اس نے ویلفیئر اسٹیٹ قائم کرکے ایک مثال قائم کی ہے، مگر ایک ماہ قبل لندن کے گارڈین اخبار نے یہ خبر شایع کی کہ سوئیڈن کی حکومت زیر زمین خفیہ طور پر تیل نکالتی تھی اور اس کے بل بوتے پر ویلفیئر اسٹیٹ کا جھوٹا خول چڑھایا ہوا تھا۔ پاکستان کو اپنے ملک میں جو خورد برد کرتا ہے وہ نوکر شاہی ہے مگر بیرون ممالک سے آنے والی امداد کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ برطانوی فنڈ سے چلنے والی پالیسی بریف نے انکشاف کیا ہے کہ 1012 ارب روپے کورونا ریلیف پیکیج سے صرف 297 ارب خرچ کیا گیا ہے۔
برطانوی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یومیہ اجرتی مزدوروں کے لیے 200 بلین روپے میں سے 17 بلین تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی اجرتی مزدوروں پر جتنا خرچ کرنے کو دیا گیا تھا اس کا صرف 8.5 فیصد خرچ کیا گیا۔ دیگر شعبہ جات کو جو پیکیج فراہم کیا گیا تھا وہ تو درکنار شرم کا مقام یہ ہے کہ اجرتی مزدوروں کے فنڈ میں سے بھی 183 ارب روپے ہڑپ کرلیے گئے۔
یوٹیلیٹی اسٹور کے پیکیج میں سے بہت کم رقم خرچ کی گئی۔ لہٰذا ادارے نے یوٹیلیٹی اسٹور سبسڈی کے آڈٹ کی ہدایت کی ہے۔ انسان کو جینے کے لیے جن بنیادی اشیا کی ضرورت ہے وہ عوام کو سستی قیمتوں میں ملنے کے بجائے روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہیں جس سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ نئے سال کے آغاز پر پٹرول، آٹا، چینی، گھی اور تیل کے بعد دالیں اور چاول بھی مہنگے ہوگئے۔
ہول سیل مارکیٹ میں ایک ہفتے کے دوران دالیں 15 روپے مہنگی ہوگئی ہیں۔ ماش کی دال 15 روپے مہنگی ہوکر 225 روپے سے بڑھ کر 235 روپے کلو ہو گئی جب کہ ریٹیل مارکیٹ میں ماش کی دال 245 سے 250 روپے کلو مہنگی ہوگئی۔ مونگ کی دال 230 روپے سے بڑھ کر 245 روپے کلو پہنچ گئی۔
ریٹیل مارکیٹ میں مونگ کی دال 250 روپے سے 255 روپے کلو ہے۔ ہول سیل میں باسمتی چاول 120 روپے کلو سے بڑھ کر 140 روپے کلو اور ریٹیل مارکیٹ میں باسمتی چاول درجہ اول 160 سے 180 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ ان سماجی برائیوں کو روکنے کے لیے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی اور ان پر زائد ٹیکس عائد کرکے مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ زمین کی مشترکہ ملکیت اور مل کارخانوں کو پیداواری قوتوں کے حوالے کے ایک حد تک مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے۔