Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Asleha Ki Bartari Nahi, Sehat Ki Behtari Chahiye

    Asleha Ki Bartari Nahi, Sehat Ki Behtari Chahiye

    تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے حملوں سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں فلائٹس، ٹرینز، وہیکلز، کاروں، فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کی بندشوں کی وجہ سے ماحولیات کی آلودگی میں کمی آئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق کورونا وائرس سے جتنی اموات ہو رہی ہیں ماحولیات کی آلودگی کی وجہ سے اس سے زیادہ اموات ہو رہی تھیں، لہٰذا اس وقت ماحولیات کی آلودگی میں کمی کے باعث جتنی اموات میں کمی آئی ہیں وہ کورونا وائرس سے زیادہ ہے۔ یورپ، امریکا، جاپان اور چین کے لاک ڈاؤن سے فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سال صرف فضائی آلودگی سے اس کرۂ ارض میں چالیس لاکھ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

    زمانہ قدیم میں جب مل، فیکٹری، کارخانے، معدنیات کی کھدائی اور تیل نکالنے کا عمل نہیں ہوتا تھا جس کی بدولت آلودگی بھی نہیں ہوتی تھی۔ آج کی ترقی دس فیصد لوگوں کی ترقی ہے، جو ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، ایئر کنڈیشن گھر میں رہتے ہیں، قیمتی الیکٹرانک کے سامان، زیورات، کاسمیٹک، کپڑے، جوتے اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں اور فائیو اسٹار اسپتال میں علاج کرواتے ہیں جو ان کے نزدیک ان کی ترقی ہے۔ عوام تو بھوک، افلاس، غربت، بیماری اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں۔

    1906 میں عظیم روسی دانشور، ادیب اور محقق لیوٹلسٹیو نے کہا تھا کہ تکنیکی اور سائنسی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے اسی کتاب میں یہ بھی کہا تھا کہ روسی عوام میں اتنا سماجی شعور آ چکا ہے کہ وہ کسی حکومت کے بغیر، اپنی کارہائے زندگی کو رواں دواں رکھ سکتے ہیں۔ آج ترقی کے دور میں جتنی اموات ہو رہی ہیں دور قدیم میں بہت کم اموات ہوتی تھیں۔

    بادشاہتوں کے فتوحات کے دور میں کروڑوں انسانوں کا قتل ہوا، پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں پانچ کروڑ انسان مارے گئے۔ جاپان پر بم گراکر لاکھوں لوگ مارے گئے، ویتنام میں امریکا نے بیس لاکھ انسانوں کا قتل کیا، برطانیہ نے جنوبی افریقہ میں لاکھوں لوگوں کا قتل کیا، بنگال میں تیس لاکھ لوگ مارے گئے، امریکا نے انڈونیشیا میں پندرہ لاکھ انسانوں کا قتل عام کیا، پھر افغانستان، یمن، شام اور عراق میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کا قتل کیا۔ کیا یہی ترقی ہے؟

    چند سال قبل نیشنل جیوگرافک پر ایک ڈاکیومنٹری دکھائی گئی جس میں دنیا بھر سے جنگلوں میں ننگ دھڑنگ ایک سو انسانوں کا خون ٹیسٹ کیا، جن میں کسی کے خون میں کینسر، ایڈز، ہیپٹائیٹس، ڈائی بیٹیس، ایچ آئی وی، کولیسٹرول یا اور کوئی مہلک بیماری کے ثبوت نہیں ملے۔ روسو کے بقول "معصوم وحشی انسان" جنگل میں تو رہتے تھے لیکن انھیں آلودگی سے پاک ماحول میسر تھا۔

    آج پاکستان میں سب سے زیادہ اموات بریسٹ کینسر سے ہوتی ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ صفر اعشاریہ پانچ ملین بچے قابل علاج بیماریوں سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک لاکھ چالیس ہزار خواتین دوران حمل اور زچگی کے دوران مناسب علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔

    پی ایم اے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غیر معیاری اور جعلی ادویات کے خلاف مہم چلائی جائے، عام دوائیں اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں مناسب کی جائیں، ہر شہری کو پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت مہیا کی جائیں، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے خلاف مہم شروع کی جائے، چھالیہ، گٹکا، مین پوری، نسوار اور تمباکو کے استعمال اور اس کی تیاری پر پابندی عائد کی جائے۔ پاکستان کے ہر صوبائی دارالخلافہ میں ایک میسر لیب کا قیام عمل میں لایا جائے۔

    دنیا اس وقت کورونا وائرس کے لپیٹ میں ہے۔ افریقی ممالک، جنوبی امریکی ممالک اور ایشیا کے چند ممالک نیپال، بھوٹان، منگولیہ، لاؤس، کمبوڈیا، شمالی کوریا، فیجی اور برما میں ایک ایک فرد متاثر ہے جب کہ بنگلہ دیش میں بیالیس۔ صومالیہ، موزمبیق میں ایک ایک، نکاراگوا، موریتانیہ میں دو دو، گمبیا، کینیا، زمبابوے، سوڈان میں تین تین، نومیبیا اور کانگو میں چار چار افراد متاثر ہیں۔

    کیوبا کے ڈاکٹرز جب اسپین پہنچے تو وہاں کے شہریوں نے گل پاشی کرکے اور نعرے لگا کر ان کا خیر مقدم کیا۔ کیوبا کے ڈاکٹرز اس وقت اٹلی، اسپین اور ایران سمیت متعدد ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کیوبا کی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز کسی بھی ملک میں خدمات کے لیے جانے کو تیار ہیں۔ چین کا میڈیکل اسٹاف اس وقت بیاسی ملکوں میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ کیوبا کے پینتیس ہزار ڈاکٹرز نوے ترقی پزیر ملکوں میں پہلے سے خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں۔ جب کہ امریکا کے پاس ہزاروں ایٹم بم ہیں لیکن وینٹی لیٹر نہیں ہیں۔

    کورونا وائرس نے دنیا کو ایک کر دیا ہے۔ ایک طرح سے کچھ فائدہ بھی ہوا ہے۔ دنیا میں فضائی آلودگی سے اموات ہو رہی تھیں وہ کم ہو کر اس حد تک آن پہنچی ہیں کہ کورونا وائرس سے کہیں زیادہ اموات میں کمی آئی ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دنیا میں صرف فضائی آلودگی سے ہر سال چالیس لاکھ انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ چند روز قبل یو این او شعبہ صحت نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ایک عشاریہ پانچ ملین انسان گندے پانی پینے سے مر رہے ہیں۔

    کورونا وائرس کی آمد سے پاکستان بھر میں اسپرے کیے گئے۔ فلائٹ، ٹرین، فیکٹریاں، بسیں، کاریں، مل کارخانے بند ہونے سے آلودگی میں بہت کمی آئی ہے اور جسکے نتیجے میں بہت سی مہلک بیماریاں کم ہو جائیں گی۔ احتیاطی تدابیر میں سب سے بڑی تدبیر ہر فرد دوسرے سے تین فٹ کا فاصلہ رکھے، اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔

    سوائے ایک بلاول بھٹو نے اپنے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو کہا تھا کہ فاصلہ اگر نہ رکھا تو میں پریس کانفرنس نہیں کروں گا پھر صحافیوں نے اس پر عمل کیا۔ لاک ڈائون سب سے پہلے سندھ حکومت نے کیا۔ سعید غنی نے جو پیش قدمی کی ہے یہ قابل تحسین ہے خواہ ان کا اپنا ٹیسٹ مثبت کیوں نہ نکلا ہو۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض جو ستائیس سالہ نوجوان تھے، مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے ان پر اپنی جان نچھاور کر دی، وہ ہمارے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔

    حیرانی یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم جنھیں غریبوں کا بہت خیال ہے نے دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے صرف تین ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا ہے حکومت نے خود ایک مزدور کی تنخواہ کم از کم ساڑھے سترہ ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا کم ازکم اس پر قائم تو رہتے۔

    دوسری طرف فوج کے ترجمان افتخار بابر نے یہ اعلان کیا کہ فوجی افسران ایک دو اور تین دن کی تنخواہیں عہدوں کی مناسبت سے عطیہ دینگے، یہ خوش آئند اعلان ہے دوسرے لوگوں کو بھی اس مثال پر عمل کرنا چاہیے۔ ادھر کورونا وائرس نے جس طرح دنیا اور مختلف طبقات کو ایک کر دیا، اسی طرح عالمی سرمایہ داری کو اگر ختم کر دیا جائے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔