تین ہزار سال قبل چین کے ماہر سماجیات ژنگ جیاباؤ نے اپنی کتاب "نیلی جنت" کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "چین میں دس ہزار سال تک نیلی جنت قائم تھی۔
اس جنت میں لوگ پانی سے مچھلی پکڑتے تھے اور درختوں سے پھل توڑکرکھاتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ بعد میں آسمان سے کچھ لوگ نازل ہوئے، انھوں نے آئین اور قانون بنایا۔ پھرکہا کہ ادھر جاؤ، اور اُدھر نہ جاؤ، یہ کھاؤ اور وہ نہ کھاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو۔ اس دن سے ہماری نیلی جنت کا خاتمہ ہو گیا۔ آج بھی دنیا بھر میں کروڑوں لوگ جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔
ان کی کوئی ریاست ہے اور نہ کوئی آئین، عدالت اور نہ فوج۔ شکار کرکے پھل کھا کرگزارا کرتے ہیں، وہ کسی بھی ملک میں جاسکتے ہیں۔ ان کا کوئی خاندان ہے، جائیداد ہے، اسلحہ ہے اور نہ ملکیت۔ انھیں اپنی مرضی سے کھانے، رہنے جانے اور ملنے کی آزادی ہے جب کہ آج کے جدید دور میں ایئرکنڈیشن ہے، ہوائی جہاز ہے، لمبی گاڑیاں ہیں اور اونچی عمارتیں ہیں لیکن سب کے پاس نہیں۔
اگر سب کے پاس ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ایسی سائنسی ترقی کو روک کے ایسے ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں کوئی بھوکا مرے، قتل ہو، گداگر ہو، نہ عصمت فروشی۔ مگر آج کی آزادی تجارت کی آزادی، لوٹ مار کی آزادی، رقم بٹورنے کی آزادی، جنگ لڑنے کی آزادی اور بلوانوں کی علاقوں پر قبضے کرنے کی آزادی ہے۔ ساتھ ساتھ بھوک، افلاس اور بے روزگار ہوکر مرنے کی آزادی۔ مگرکمیونسٹ معاشرے میں حقیقی آزادی ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ فطری معاشرہ ہوتا ہے۔
اس جدید فلسفے کی بنیاد فرانس کے سینٹ سائمن کے مطابق پہلے سوشل ازم بعد میں کمیونزم آئے گا، ان کا کہنا تھا کہ سوشل ازم ریاستی آلات کے ذریعے نافذ ہوگا۔ کارل مارکس نے اسی تھیوری کو اپنایا جب کہ برطانیہ کے روبارٹ اووین اور فرانس کے جارج فریئر نے آزاد سوشل ازم کی بات کی کہ انقلاب کے بعد محنت کشوں، شہریوں اور پیشہ ورانہ شعبوں میں کام کرنے والوں کو اقتدار حوالے کرنا ہے۔ ریاستی جبر میں عوام کی حکمرانی کے بجائے کارکنان کی حکمرانی عوام پر مسلط ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں کمیونسٹ معاشرے کی جانب پیش قدمی کرنے کے بجائے سرمایہ داری پلٹ آتی ہے۔
میخائل ایلگزانڈر باکونن نے درست کہا تھا کہ ریاست جبر کا ادارہ ہے، اس کے چار بنیادی آلہ کار فوج، اسمبلی، میڈیا اور عدالت، صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہیں۔ لہٰذا ریاست کیونکر عوام کی بھلائی کرے گی۔ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے تھوڑی بہت عوام کو سہولت دینی پڑتی ہے اس لیے کہ اگر مزدور بھوک سے مر جائے تو پھر پیداوار کون کرے گا؟ سوویت یونین میں انقلاب کے بعد آزاد سوشل ازم کے بجائے مطلق سوشل ازم نافذ ہوا۔ جس پرکروپوتکین نے کہا تھا کہ مطلق سوشل ازم نے انقلاب کو دفنا دیا۔ اس کے باوجود سوویت یونین میں سرمایہ داری کے مقابلے میں لاکھ گنا عوام کو فائدہ ہوا۔
دہائیوں تک روزمرہ کی اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ بھوک، افلاس، بے علاجی، ناخواندگی، گداگری، بے روزگاری، بے گھری، منشیات نوشی اور عصمت فروشی ناپید ہوگئی تھی، چونکہ جبر کے ذریعے سوشل ازم نافذ ہوا اس لیے مستقل رہنا ممکن نہ تھا اور کمیونزم کی جانب پیش قدمی کرنے کے بجائے سرمایہ داری کی جانب رد انقلاب آگیا۔ اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ حکومتیں اور ان کی اسمبلیاں بری طرح سے حکومتیں چلا رہی ہیں۔
یہ وزرا کسی بھی شعبے کے ماہر ہوتے ہیں اور نہ انھیں جان کاری ہوتی ہے۔ صرف ایک کام آتا ہے اور وہ ہے پیسہ بٹورنا۔ دنیا میں سرحدوں کی پہریداری کے لیے کھربوں ڈالر فوج پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے ملکوں کی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ دوسری جانب لوگوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بیماریوں، حادثات، قتل و غارت گری، لوٹ مار، قدرتی آفات اور بھوک سے روزانہ لاکھوں انسان مر رہے ہیں۔ میڈیا میں ہمیں جو تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ان میں محنت کش عوام، عام شہری یا کسان نظر نہیں آتے۔
متوسط طبقے کے دھلے ہوئے لوگ ہی نظر آتے ہیں، جن کے اپنے کوئی مسائل نہیں ہوتے۔ ترقی پذیر ملکوں میں عدالتوں کا بھی یہی حال ہے۔ لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے جج حضرات اور لاکھوں روپے فیس لینے والے وکلا تک عام شہریوں کی پہنچ ہی نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ ان کی تنخواہیں دس ہزار سے زیادہ نہیں ہوتیں، وکلا کو لاکھوں روپے کی فیس کہاں سے دیں گے۔
ان مسائل کا حل ریاست کا متبادل خودکار تنظیم فی الفور قائم کرکے پیشہ ورانہ اور خطوں کی بنیاد پر خودمختار اور خودکار انجمنیں اپنی زندگی کے روز مرہ کے کام انجام دیں گی۔ ریاست بھی دولت مندوں کی دولت میں اضافے کے لیے سب کچھ کرتی ہے لیکن دال دلیہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ ریاست کی آلہ کار حزب اقتدار ہو یا اختلاف نان ایشوز پر ہڑتالیں کرتی ہیں لیکن حقیقی مسائل پر نہیں، اگر دنیا میں ہڑتالیں ہوتی ہیں تو پیشہ ورانہ تنظیمیں اور مزدور کسان ہی کرتے ہیں اور انقلابی صورتحال بھی پیدا کرتے ہیں۔
جہاں تک جماعتوں اور رہنماؤں کا تعلق ہے تو وہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی عوامی جنگ، شکاگوکی مزدور تحریک یا وال اسٹریٹ قبضہ تحریک ان کی بہترین مثالیں ہیں۔ بنی بنائی ریڈی میڈ لیڈرشپ نہیں ہوتی۔ اگر مطلق سوشل ازم کے بجائے آزاد سوشل ازم ہوتا تو روس، چین، مشرقی یورپ، ہندو چین، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ ریاستیں ختم ہونے کے بجائے کمیونزم کی جانب پیش قدمی کرتیں۔
اس وقت دنیا بھر کے عوام کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان سمیت خطے میں عام شہریوں اور محنت کش، آزاد سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی کوشش کو تیز تر کریں، جو آگے چل کر آزد فطری معاشرہ (کمیونزم) قائم کریں گے۔ یہ تو رہا مستقبل کا سپنا یا تصور جو دنیا کے ہزاروں علاقوں، خطوں، پہاڑوں، جنگلوں اور ساحلوں پہ آج بھی کمیون نظام کی شکل میں رائج ہیں۔ یہ لوگ کروڑوں میں ہیں۔ صرف فرانس میں پانچ ہزار سے زیادہ کمیون قائم ہیں۔ جن میں سے ایسے کمیون (امداد باہمی کا آزاد سماج) بھی موجود ہیں جو کہ 36 کلو میٹر پر قائم ہیں۔ یہاں لاکھوں کی آبادی برابری کی بنیاد پر بستی ہے۔ کوئی فوج ہے، پولیس ہے اور نہ ویزا پاسپورٹ۔ 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔
اس قسم کے کمیون اٹلی، ناروے، میکسیکو، ہندو چین، بھارت اور امریکا میں رائج ہیں۔ برصغیر میں بھی شاہ عنایت نے ٹھٹھہ میں کمیون (پنچایتی) نظام قائم کیا تھا جسے حکمرانوں نے کچل دیا تھا۔ آج تو پاکستان میں عوام کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی۔ اس لیے آج کی لڑائی بے روزگاری، مہنگائی، بے گھری، بے زمینی، ناخواندگی، بے علاجی اورجینے کی آزادی کی لڑائی ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کو جس خطرناک سطح پر لے گئی ہے اتنی خطرناک صورتحال کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ شہروں میں پانی، بجلی، گیس، نکاسی آب، کچروں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ان مسائل کے حل کی جدوجہد آج کی بنیادی لڑائی ہے۔