دنیا کے مزدوروں کا پہلا انقلاب پیرس کمیون فرانس کے شہر پیرس میں اٹھارہ سو اکہتر میں برپا ہوا۔ اس انقلاب کا کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی پارٹی، صرف ستر دن قائم رہا۔ مزدور طبقے نے یہ کر دکھایا کہ مزدور طبقہ اتنا انقلابی، باشعور اور سنجیدہ ہوتا ہے۔
تقریباً ایک سو پچاس سال قبل سندھ، ضلع ٹھٹھہ، جھوک میں عظیم انقلابی شاہ عنایت کی قیادت میں کسانوں کا کمیون قائم ہوا تھا۔ اس کمیون کے بانی صوفی شاہ عنایت اللہ تھے، سولہ سو پینسٹھ میں ملتان، لانگاہ میں پیدا ہوئے اور سات جنوری سترہ سو اٹھارہ میں انھیں شہید کیا گیا۔
انقلابی صوفی عنایت کو مغل گورنر اعظم خان نے قتل کروایا۔ انھوں نے بہار، یوپی، عراق، ایران وغیرہ کا دورہ کیا اور وہاں کے دانشوروں، گدی نشینوں، صوفیوں، پیروں اور ماہر سماجیات کی صحبت میں رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ پھر وہ جھوک، ٹھٹھہ میں رہائش پذیر ہوئے۔
انھوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی قتل و غارت گری کو بھی دیکھا اور اس کے بعد غریبوں کی جانب قربت بڑھی۔ جب انھوں نے یہ نعرہ دیا کہ "جو بوئے وہ کھائے" یعنی جو کھیت میں کام کرے گا اسی کو کھانے کا بھی حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین پر کسان کام کرتا ہے، محنت کرتا ہے اور پیداوارکرتا ہے، لہٰذا زمین اور پیداوار پر بھی اسی کا حق ہے۔ انھوں نے کسانوں کا کمیون اس طرح قائم کیا کہ سب لوگ اپنی جوکچھ ملکیت ہے یا نہیں ہے وہ کمیون کے حوالے کریں، پھر مل کر پیداوار کریں گے اور پیداوار کو سب میں بانٹ دیں گے۔
یعنی پیداوار مشترکہ طور پر کریں اور اجناس ہر ایک کو ضرورت کے مطابق تقسیم کر دیں۔ یوں کہہ لیں کہ کسی کے پاس اگر دو مرغیاں ہیں، تو کسی کے پاس تین بکریاں، کسی کے پاس چھ بطخیں یا چار بھینسیں یا دو گائے یا چند ایکڑ زمینیں ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ کمیون کے حوالے کرے گا۔ اور یہ سب کچھ اجتماعی ملکیت بن جائے گی۔ جب یہ عمل چل پڑا تو پلیجو جاگیردار (عوام نہیں ) اور کلہوڑو نواب (عوام نہیں ) ان کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنے لگے۔
صوفی عنایت جب رتنا گری کی جیلوں میں تھے وہاں بنگالیوں اور دیگر لوگوں سے گوریلا وار کی تربیت حاصل کی تھی جسے انھوں نے اپنے مریدوں کو بھی سکھایا جس میں دشمنوں کے حملے پر انھیں مار بھگایا جائے۔ کھیتوں میں جب فصل تیار ہوتی تھی تو وہیں سے سارے کسانوں میں ضرورت کے مطابق فصل تقسیم کردی جاتی تھی۔ بعدازاں کسانوں کی جڑت اور منصفانہ کمیون کا نظام کلہوڑو حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ انھوں نے اکتوبر سترہ سو سترہ میں جھوک شریف پر حملہ کیا اور تقریباً چار ماہ یہ حملہ جاری رہا۔ جھوک شریف پر مسلسل حملے کے باوجود مغل گورنر اعظم خان فقیروں پہ قابو نہ پاسکے۔
(صوفی شاہ عنایت کے مریدوں کو فقیرکہا جاتا تھا اور شاہ عنایت بھی اپنے آپ کو فقیر کہتے تھے) تو مغل گورنر اعظم خان نے صلح کے نام پہ قرآن کو گواہی بناکر شاہ عنایت سے مذاکرات کی پیش کش کی۔ چونکہ مغل نمایندے کے ہاتھ میں قرآن تھا اس لیے شاہ عنایت نے صلح کے لیے رضامند ہوگئے۔
جیسے ہی وہ اپنی فصیل سے باہر نکلے انھیں اعظم خان کے محل میں لے جایا گیا اور وہاں انھیں قتل کر دیا گیا اور ان کا سر نیزے کی نوک پر دہلی میں فرح سیر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ صوفی شاہ عنایت کی شہادت کے بعد ہزاروں فقیروں کا قتل عام کیا گیا اور سات کوئیں کھودے گئے، ان کنوؤں میں ہزاروں انقلابی کسانوں کو اجتماعی طور پر دفنا دیا گیا۔ آج ان کنوؤں کو "گنج شہدا" کہا جاتا ہے۔
شاہ عنایت اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے ایک سال بعد دہلی میں فرح سیر کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس بغاوت کے دوران وہ اندھا ہوگیا تھا اور قید خانے میں ہی انتقال ہوا۔ آج فرح سیر کا کوئی نام لیوا ہے اور نہ کوئی اس کا نام جانتا ہے لیکن شاہ عنایت کو ایک عظیم انقلابی کسان رہنما کے طور پر ساری دنیا میں جانا جاتا ہے۔
شاہ عنایت جب سترہویں صدی میں کسانوں کی انقلابی کمیون قائم کیا تھا تو اس وقت باکونن تھا، مارکس تھا اور نہ پیترکروپوتکین۔ کمیونزم اور انارکزم کے ناموں سے بھی کوئی واقف نہ تھا مگر زمین کی اجتماعی ملکیت کے کسان حامی تھے اور نہ جانتے تھے۔ خواہ وہ اسے امداد باہمی کا سماج کہتے ہوں یا پنچایتی نظام۔ بہرحال نجی ملکیت، جائیداد اور جاگیرداری کے مخالف تھے۔ ٹھٹھہ کے علاوہ پنجاب میں کسانوں نے "پریم نگری"، دہلی میں "مولا بخش"، بنگال میں "انوشیلن" اور "یوگانتر" کے ناموں سے عظیم کسان تحریکیں چلیں۔ ان عوامل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی ریاست، پارٹی کے بغیر بھی عوام اپنے مسائل خود حال کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
آج دنیا بھر میں جتنی تحریکیں چل رہی ہیں ان کا کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی پارٹی۔ عوام آزادانہ طور پر مسائل پر ردعمل کر رہے ہیں۔ جب سے ریاست وجود میں آئی ہے عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاست کا جبر مختلف ادوار میں کم یا زیادہ ہو سکتا ہے لیکن ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ کام اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں ہی ممکن ہے۔ ابھی دنیا میں بڑی بڑی ریاستوں کو دیکھ لیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، ہندوستان، چین، پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب وغیرہ کا کیا حال ہے؟ عوام کے دیرینہ مسائل حل ہونا تو درکنار بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی دن نہیں کہ پانچ دس انسان حادثات، ٹارگٹ کلنگ، اغوا، زیادتی، غذائی ملاوٹ اور مہلک بیماریوں سے نہ مرتے ہوں۔
کم سن بچے اور بچیاں روز اغوا ہوتی ہیں، ان کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے اور پھر قتل کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ کتنی گرفتاریاں ہو رہی ہیں مگر اسے روکا نہیں جا رہا ہے۔ عراق میں پانچ سو، ایران میں دو سو، یمن میں سو، بھارت میں (کشمیر میں ہزاروں ) اور دیگر علاقوں میں اب تک تیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ فرانس میں دو ہزار اٹھارہ میں ایک سو سولہ خواتین کو تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ لبنان، چلی، ایکوا ڈور، ہیٹی، اورے گوئے، نکاراگوا، کولمبیا، ہانگ کانگ اور اسپین میں انسان، انسانوں کا قتل کیے جا رہے ہیں۔ یہ قتل و غارت گری، غلامانہ نظام کے رائج ہونے یعنی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد مسلسل جاری ہے۔
جب ریاست کا وجود نہیں تھا تو اس طرح کی قتل و غارت گری، اموات اور بیماریاں ناپید تھیں۔ آج بھی دنیا کے ساڑھے چار کروڑ انسان جو جنگلوں میں رہتے ہیں، ان میں سو افراد کا خون ٹیسٹ کیا گیا تو کسی کے خون میں کوئی مہلک بیماریاں نہیں ملیں۔ تو کیا یہ سائنسی اور تیکنیکی ترقی اور ایجادات سے مسائل کم ہوئے ہیں یا بڑھے ہیں؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست مسائل کا حل نہیں۔ ایک بے ریاستی سماج جو دنیا بھر کی سرحدوں کا خاتمہ کرکے دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کو جہاں چاہیں جانے کی آزادی دے۔ اس لیے کہ دنیا سارے لوگوں کی ہے۔ یہی امداد باہمی کا سماج یا اشتمالی سماج یا کمیونسٹ سماج کہلائے گا۔