برصغیرکی امن پسندی، انسان دوستی، بھائی چارگی اور پنچایتی نظام ہزاروں برس پر محیط ہے۔ آج سے سات ہزار سال قبل یہاں کمیون نظام رائج تھا، جس کا ثبوت آج بھی موئنجودڑو، مہرگڑھ، ہڑپہ، ٹیکسلا اور گجرات (بھارت) میں موجود ہے۔ یہاں کھدائی کے بعد ہر چیز دریافت ہوئی ہے لیکن اسلحہ، مندر، محل یا ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہاں اس وقت ریاست کا کوئی وجود رہا ہو، یہاں قدیم پنچایتی نظام رائج تھا۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور بانٹ لیتے تھے۔ بانٹنے والا بھی اتنا ہی لیتا تھا جتنا اوروں کو بانٹتا تھا، اس بانٹنے والے کو "بھاگوان" کہا جاتا تھا۔
اس خطے کا سب سے بڑا ریاستی نظام زرتشتوں کا تھا، جن کا بادشاہ سائرس اعظم ہوا کرتا تھا اور اس کا دارالحکومت خراسان کا شہر نیشا پور تھا۔ سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔ چونکہ فارسی میں شہرکو پور بھی کہتے ہیں، اس لیے انھوں نے نیشاپور، خیرپور، غازی پور، رام پور، شاہجہان پور، رنگ پور، کوالالمپور اور سنگاپور وغیرہ کے الفاظ کو شہروں کے ناموں کے ساتھ جوڑا تھا۔ زرتشتی بادشاہوں نے اپنے دور میں ہزاروں افرادکا قتل عام کیا خاص کرکے وسطی ایشیا اور ایران میں زیادہ قتل عام کیا۔ اشوکا نے پورے بھارت میں قتل و غارت گری کرنے کے بعد جب اڑیسہ میں بے دریغ قتل عام کرلیا تو بدھ مت اختیارکیا، پھر پورے برصغیر میں امن قائم ہوا۔ یہ امن کچھ صدیوں تک رہنے کے بعد حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں جنگ و جدل شروع ہوگئی۔
ایک بار پھر مذہبی اور فرقہ واری قتل و غارت گری ہونے لگی، پھر انیس سو پینتالیس اور انیس سو اکہتر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے بٹوارے میں بے شمار ہلاکتیں ہوئیں۔ آج بھی بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں دنیا کی چالیس فیصد غربت پلتی ہے۔ اب عالمی سرمایہ دارانہ نظام انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ چونکہ بایاں بازو دنیا کے عوام کو ان کی ضروریات پوری نہ کر پائی اس لیے عوام کے سامنے کوئی متبادل نہ رہا، پھر وہ دائیں بازوکو ووٹ دینے پر مجبور ہوئے۔
اس لیے آج امریکا، برطانیہ، فرانس، برازیل، آسٹریلیا، ہندوستان اور پاکستان وغیرہ میں انتہائی دائیں بازوکی حکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔ ہرچند کہ یہ وقتی پسپائی ہے، مگر اس وقتی پسپائی میں بھارتی ہندو انتہا پسند نریندر مودی نے جبر و ظلم کی انتہا کردی ہے، اس پر ان کے اپنے اتحادی بھی بولنے پر مجبور ہوگئے۔ مشرقی اور جنوبی بھارت میں ایک عرصے تک بایاں بازو حکمران رہنے کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں کر پائے، اس لیے آج مودی سرکار ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اب مسلم اقلیت کے خلاف شہریت بل منظورکرنے کے بعد بھارتی عوام ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پہلے تو حکومت نے یہ اعلان کیا کہ آسام میں پانچ لاکھ ہندو بنگالیوں کو شہریت تو دی جائے گی لیکن بارہ لاکھ مسلم بنگالیوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔
پھر بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے آئے ہوئے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ یہ ایک ایسا عوام دشمن اور محنت کش دشمن بل ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور انسان اتفاق نہیں کرسکتا۔ اس بل کے خلاف سب سے پہلے مشرقی بھارت پھر جنوبی بھارت اور اب تو سارا بھارت لپیٹ میں آگیا ہے۔ کانگریس، سول سوسائٹی، طلبا، خواتین، قوم پرست یعنی سماج کا تقریباً ہر حصہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ خاص کر کمیونسٹ پارٹیاں، سوشلسٹ پارٹیاں اور انارکسٹ پیش پیش ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی اور مارکسٹ کے کارکنان لاکھوں کی تعداد میں ہر شہر میں احتجاج کر رہے ہیں۔
اب تک جھاڑکھنڈ، بہار، راجستھان، کرناٹکا اور آسام سمیت 11 صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس متنازع بل کو منظورکرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے تمام صوبائی (راشٹریو) حکومتوں کو خطوط بھیجے ہیں کہ وہ اس متنازع بل کی منظوری نہ دیں۔ سب سے زیادہ احتجاج آسام، تری پورہ، میگھالائے، بہار، اڑیسہ اور جھاڑ کھنڈ میں ہوا۔ خاص کرکے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر آر ایس ایس کے غنڈوں کے حملے کے بعد اب یہ لڑائی دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی بن گئی۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ طلبا کی جدوجہد کی رہنمائی لڑکیاں کر رہی ہیں۔
دائیں بازو کی یلغار کے باوجود جیسا کہ ٹرمپ نے قدیم آبادی کے خلاف نفرت پھیلا کر انتخابات جیتے لیکن اب عوام کو کچھ نہیں دے پا رہے ہیں۔ بریگزٹ کے نام پر جیتنے والے بورس جانسن برطانیہ میں بیروزگاری کو نہیں روک پا رہے ہیں۔ یہی صورتحال جنوبی افریقہ اور برازیل کی ہے۔ یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا شدید بحران ہے جو بھارت میں زیادہ ابھرکے سامنے آیا ہے، لیکن دنیا بھر میں اس کا ردعمل بھی ہو رہا ہے۔ برازیل، چلی، ایکواڈور، ایران، عراق اور لبنان میں لاکھوں کے مظاہرے ہوئے۔
فرانس نے تو کمال ہی کر دیا، ایک سال چھ ماہ سے پیلی جیکٹ تحریک چل رہی ہے، انھوں نے اب تک اپنے 12 مطالبات منوا بھی لیے ہیں اور ہانگ کانگ کی کالی چھتری تحریک کو بھی سال ہونے کو ہے، رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ارجنٹینا، میکسیکو اور نیوزی لینڈ میں بائیں بازو کی جیت ہوئی ہے، جب کہ خود بھارت میں جھاڑکھنڈ میں بی جے پی کو شکست اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی سرمایہ داری کا یہ بحران دنیا بھر کے دائیں بازو کی حکومتوں کو لے ڈوبے گا۔ سرمایہ داری نے نام نہاد ترقی کے جن کو بوتل سے نکال تو لیا ہے لیکن اب وہ اس کے سنبھالے نہیں سنبھل پا رہا ہے۔ بشمول بھارت دنیا بھر کی پیداواری قوتیں محنت کش عوام اور شہری لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
پاکستان میں بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ طلباء اپنی تنظیم کے اداروں، انتخابات کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین بھی اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کے حوالے سے بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ ادھر تحریک انصاف کی حکومت بے پناہ مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی لانے کے بجائے اضافہ کرتی جا رہی ہے اس پر عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بات کرتے ہیں تو بقول نیب 23 ارب کی رقم اگر ریکور ہو چکی ہے تو وہ کہاں گئے؟ عوام پر خرچ کیے گئے یا ہوا میں معلق ہو گئے۔ آٹا، دال، چاول، چینی، گوشت، انڈوں کی قیمتوں میں کیوں کمی نہیں ہو رہی ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف عوام سے یہ وعدہ نہیں کر رہی ہے کہ مہنگائی کو وہ کس سطح پرکم کریں گے۔ وہ تو صرف اقتدارکی لڑائی لڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کم ازکم انھیں عوام سے یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ ہم اقتدار میں آگئے تو آٹا 50 روپے کلو، دودھ 50 روپے کلو، دالیں 100 روپے کلو، تیل 100 روپے کلو کریں گے، چونکہ وہ خود بھی اسی سرمایہ داری کو تحفظ دے رہے ہیں۔ اس لیے عوام سے وعدہ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ عوام پارٹیوں اور لیڈروں سے اکتا گئے ہیں، اس لیے وہ خود بھی سراپا احتجاج ہیں۔ وہ متبادل کی تلاش میں ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ متبادل امداد باہمی کا آزاد سماج ہو یا کمیونسٹ سماج ہو یا پھر عوام کوئی اور بہتر راستہ اختیارکریں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔