حال ہی میں مشرقی اور مغربی ہندوستان میں صوبائی انتخابات ہوئے جن میں کیرالہ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست کا سامنا رہا جب کہ زبردست مقابلے کے ساتھ آسام اور پاڈوچری میں بی جے پی جیت گئی۔
سب سے اہمیت کا حامل انتخابات مغربی بنگال کا تھا جہاں 292 نشستوں میں 185 وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی جماعت ترغول کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ بی جے پی 104 نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ دوسرا بڑا معرکہ تامل ناڈو کا تھا۔ جہاں 234 میں سے 138 نشستوں پر ڈی ایم کے نے فتح حاصل کی ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعت نے 92 نشستیں حاصل کی ہیں۔ کیرالہ میں 140 نشستوں کے لیے مقابلہ تھا یہاں بائیں بازو کی جماعت لیفٹ ڈیموکریٹک فیڈریشن نے 81 نشستیں لے کر کامیابی حاصل کی ہے۔
یونائیٹڈ ڈیموکریٹک پارٹی کو 50 نشستیں ملی ہیں، یہاں بی جے پی کے 30 سے زائد سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو صرف 3 نشستیں ملی ہیں۔ آسام میں بی جے پی کے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 77 نشستیں جیتی ہیں جب کہ یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس نے 48 نشستیں حاصل کی ہیں۔ اسی طرح پاڈوچری میں 30 میں سے 17 نشستیں بی جے پی کے اتحادی نے حاصل کی ہیں اور 11نشستیں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس نے حاصل کی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ کو مغربی بنگال میں ایک بھی نشست نہیں ملی جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جب ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے سرمایہ کاری کی تو میدنی پور کے کسانوں نے زمین کے تحفظ کے لیے مالز اور شاپس بنانے کی مزاحمت کی جب کہ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی نے حمایت کی۔ سی پی کے کارکنان نے کسانوں کا ساتھ دیا جب کہ لیڈران نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے 30 سال میں انتخابی سیاست کی، کوئی راست انقلابی قدم نہیں اٹھایا۔ کانگریس اوپر سے سیکولر جب کہ اندر سے ہندو بنی رہی۔ کسی زمانے میں بی جے پی کو صرف 2 نشستیں حاصل ہوتی تھیں اور کمیونسٹ پارٹی تیسرے نمبر پر ہوتی تھی۔ اب کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مودی نے بھی شروع میں کورونا وائرس کو مذاق کے طور پر لیا جس کے نتیجے میں اس وقت روزانہ 3000 افراد کی اموات جب کہ اب تک بھارت میں لاکھوں شہری لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے مدد کی پیش کش کی ہے مگر بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے 150 ایمبولینسیں دینے کی پیش کش کی ہے مگر ہندوستان اس پر بھی خاموش ہے۔ جب کہ مشرقی پنجاب کے پارلیمنٹ کے رکن کرن سنگھ نے مودی سرکار کو خط لکھا ہے کہ واہگہ سیکٹر پر ایک دوسرے کی مدد کے لیے کوریڈور کھولا جائے اور پاکستان کی پیشکش کو قبول کیا جائے مگر ابھی تک شاید انھیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ دنیا کی 40 فیصد غربت برصغیر میں پلتی ہے۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم او ای سی ڈی کی 2018 میں ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حقیقت میں ہندوستان کے کسانوں کی آمدن میں ایک سال میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں حالیہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کے انتخابات میں پی پی پی نمبر ایک پر جب کہ مسلم لیگ ن نمبر دو پر آئی ہے۔ جب کہ اس علاقے میں اے این پی اور ایم کیو ایم کا راج ہوتا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کا امیدار پہلے جیتا تھا مگر اس بار پانچویں نمبر یعنی سب سے کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام پی ٹی آئی سے بے زار ہیں۔ انھوں نے عوام سے بہت کچھ وعدے کیے تھے لیکن دیا کچھ نہیں۔ یہ شکست اس کا برملا اظہار ہے۔ ادھر ڈسکہ میں بھی ایم ایل این جیت گئی ہے اور پی ٹی آئی کو شکست ہوئی ہے۔
پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ اپریل 2021 میں افراط زر بڑھ کر 11.1 فیصد پر پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ واضح رہے کہ وزارت خزانہ نے ایک ہفتہ قبل افراط زر 9.5 فیصد بڑھنے کا تخمینہ لگایا تھا اور اب یہ 11.1 فیصد ہو گیا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق وزارت خزانہ، برائے اقتصادی مشیر اصل اعداد و شمار سے آگاہ تھے۔ اس کے باوجود اس نے غیر حقیقی اعداد و شمار شایع کیے۔ چند دنوں قبل وزیر خزانہ نے یہ بیان دیا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ غلط ہے۔
اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو آئی ایم ایف سے بجلی والے معاہدے کی شرط سے الگ ہو جائیں اور آئی ایم ایف سے ناتا توڑ لیں اور عوام سے ناتا جوڑ لیں افراط زر کے بڑھنے سے اپریل کے مہینے میں مرغی کی قیمت میں 100فیصد، ٹماٹر 81 فیصد، انڈے 42 فیصد اور گندم کے نرخ ایک سال قبل کے مقابلے میں 27 فیصد زائد رہے۔ 11000 ارب روپے کے نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ حکمران طبقے کا دوسرا گروہ پی ڈی ایم ایک نئے طریقے سے عوام کو جھانسا دے رہا ہے، مگر اس کا طریقہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو پا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی غیر مستحکم کیفیت دراصل ریاستی انتشار اور عدم استحکام کی نشاندہی کرتی ہے۔
ریاستی ڈھانچہ اور ادارے انتہائی خستہ حال، نااہل، پسماندہ اور متروک ہیں۔ ریاست کی سماج پر گرفت کمزور ہے جو اسے جبری گمشدگی اور ماورائے قانون اقدامات پر مجبور کرتی ہے۔ جس کے خلاف پھر کبھی نہ کبھی نہ دیکھی گئی مزاحمت بھی نظر آ رہی ہے۔ ریاستی نوکر شاہی حکومتی نااہلی سے بہتر طور پر باخبر ہے۔
وہ اس سے مکمل فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنی مراعات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اسی کے ذریعے اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور انتظامی اصلاحات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ انتظامی اصلاحات کا ادارہ بنیادی طور پر چند بوڑھے سول سرونٹس اور ٹینکوکریٹس کے اپنے مفادات کے لیے ایک مشغلہ ہی ہے۔
گزشتہ ماہ کورونا وائرس سے اموات روزانہ 50 تھی جو بڑھ کر 100اور اب 150 سے 200 پہ جا رہی ہے۔ معروف سائنس دان ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں اموات کی شرح یہی رہی تو اگست تک روزانہ 18 ہزار اور ہندوستان میں 31ہزار تک جا پہنچیں گی۔ اس لیے ہند و پاک کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن آکسیجن نہیں ہے، ایمبولینسیں نہیں ہیں، بستر نہیں ہیں اور ویکسین بھی نہیں ہے۔ صحت کا بجٹ انتہائی کم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر صحت کے بجٹ میں سب سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔