معیشت کا عوامی جائزہ لینے کے بجائے حکومتی اعداد و شمار کو ہی دیکھ لیں تو حواس درست ہوجائیں گے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے 73سالوں میں پاکستان کے کل قرضے کا 35فیصد موجودہ حکومت کے دوران لیا گیا ہے، یہ وہ قرضے ہیں جو کئی دہائیوں سے پاکستان کی غریب عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کر رہے ہیں اور جب تک سرمایہ داری نظام زندہ ہے، یہ قرضے ختم نہیں ہو سکتے، ملک ان قرضوں کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔
آٹھ ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا جو ہدف موجود حکومت نے رکھا تھا، وہ دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور تاجروں نے ٹیکس دینے سے ایک طرح سے انکار کردیا ہے، یوں معیشت کا سکڑاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ شبر زیدی صاحب کو چیئر مین ایف بی آر بنایا گیا تھا، وہ اب حالات کو دیکھتے ہوئے استعفیٰ دیکر درپردہ ہو چکے ہیں۔ حکومت کے ان دو برسوں میں پانچ چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بحران کتنا سنگین ہے۔ سب سمجھ چکے ہیں کہ سنجیدہ معاشی اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا سارا زور اس پر ہے کہ کسی نہ کسی طرح معیشت چلتی ر ہے۔
معیشت جتنی سست روی کا شکار اور کمزور ہوگی سماجی انصاف اور سیاست بھی اسی نوعیت کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان یو ٹرن لینے کو ایک عقل مندی اور مثبت اقدام قرار دیتے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر ہٹلر یو ٹرن لیتا تو اسے شکست نہ ہوتی۔
یعنی دوسرے معنوں میں یوں ٹرن ہر صورت لیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی سے خطے کے مسائل حل ہوں گے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات بہتر ہوں گے۔ یہ بات بھی اب سب کے سامنے عیاں ہے کہ وہ چین، ملائیشیا اور ترکی کی اکثر مثالیں دیتے تھے اور اب بھی ایسا کرتے ہیں۔ مگر جب ملائیشیا نے ایک مسلم اتحاد کی تشکیل کے لیے اجلاس بلایا تو ہمارے وزیراعظم اس اجلاس میں نہیں گئے۔
ان تمام حرکات و سکنات سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری حکومت کے پاس عالمی صف بندی میں اپنی جگہ کا تعین کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ جب گاڑی چلانے والا ڈرائیور خود تذبذب کا شکار ہو گا تو اس کی گاڑی میں سوار باقی لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے وزراء اور دیگر رہنما اکثر مختلف موضوعات پر متضاد بیانات دیتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، جس ملک کی معیشت کی صورتحال خراب ہوگی تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ممالک نیپال، سری لنکا، بھوٹان، ہندوستان اور ایران تقریباً سبھی کی معیشت اور سیاست ہم سے بہتر ہے۔ انقلابی بزرگوں نے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حیات کو طول دینے کے دو راستے ہیں، ایک جارحانہ اور دوسرا دھوکا دہی کا نام نہاد شریفانہ طریقہ۔ تحریک انصاف کی حکومت یہی کررہی ہے، اگر مراد سعید، شہریار آفریدی، فیصل واوڈا اور دیگر کا جارحانہ رویہ ہوتا ہے تو دوسری جانب اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری کا لہجہ مسکراہٹ میں چھپا ہوتا ہے، مگر اس بات پر سارے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمیں اس نظام کو درست کرنا چاہیے۔
لیکن سرمایہ داری نظام کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ عوام بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری اور بے علاجی میں تڑپ رہے ہیں اور اپوزیشن پارٹیوں نے ٹی وی ٹاک شوز، پریس کانفرنسوں اور بیانات کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھا ہوا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ عوام کو سڑکوں پر نہ لانے کا ان کا عزم مصمم ہے۔ اس لیے کہ اپوزیشن اس بات سے خوفزدہ ہے کہ کہیں پیش قدمی عوام کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے۔
حزب اختلاف کی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں موجود ہیں جس کا اظہار برملا ہوتا رہتا ہے، جیسا کہ مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز اور شہباز شریف کی قیادت میں دو دھڑے موجود ہیں۔ کبھی مریم نواز حکومت کے خلاف خوب وار کرتی دکھائی دیتی ہیں تو کبھی مہینوں تک خاموش ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح کبھی شہباز شریف بول پڑتے ہیں تو کبھی اپوزیشن کے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک اچھی خاصی تعداد آصف زرداری کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتی مگر بلاول بھٹو زرداری سے اتفاق کرتی ہے۔ ادھر عوامی نیشنل پارٹی عوام کے مسائل پر رد عمل کرتی دکھائی نہیں دیتی، مگر کبھی کبھی ٹاک شوز میں نظر آ جاتی ہے۔
اسی طرح پختون خوا ملی عوامی پارٹی کبھی تو قوم پرستی کے جوش میں تیز طرار بیان داغ دیتی ہے اور پھر خاموش ہو جاتی ہے۔ دراصل وہ اپنے مفادات کے تابع ہونے کی وجہ سے شاید حکومت کے خلاف بروقت اور واضح پروگرام نہیں دے پاتی۔
حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور بدکلامی میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ جو الزامات ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں وہ غلط بھی نہیں ہیں۔ عدالتیں جو ریمارکس دیتی ہیں وہ بھی غلط نہیں لیکن ہر ایک اپنے کے علاوہ دوسروں کی کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے۔
عدالتیں جو فیصلے دیتی ہیں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ عملدرآمد بھی اسی نظام کے کارندوں کو ہی کرنا ہوتا ہے، پھر یہ کہ انھیں اپنے ہی طبقے کے خلاف کارروائی کرنا پڑے گی، جب کہ مقتدر قوتیں ہر ایک کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ ناگزیر نتیجہ ہیں۔ قدرتی آفات ہوں، سانحہ ہو یا کوئی اور واقعہ اس کے خلاف عوام ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ سرکاری اداروں افسر اور اہلکار تو لوٹ مار میں لگے رہتے ہیں۔
کشمیر میں جو زلزلہ آیا تھا، ان کی مدد پاکستان اور دنیا بھر کے عوام نے کی لیکن کئی جگہ ایسا بھی ہوا کہ بعض سرکاری کارندے امدادی سامان اپنے گھروں میں لے گئے۔ کئی لیٹروں نے امدادی سامان ہتھیا لیا، بہت سا سامان بازاروں میں بکتا نظر آیا۔ اب سوال یہ پید ہوتا ہے کہ اگر تمام لوگ مل کر پیداوار کرتے ہیں تو پھر اس پیداوار کی تقسیم بھی برابری کی بنیاد پر پیدا کرنے والی قوتوں میں ہونی چاہیے۔
یہی صورت حال پاکستان کی بھی ہے کہ اگر صنعتکار کارکنوں کو سہولتیں دیں۔ حکومت سرکاری زمینوں کو بے زمین کسانوں میں تقسیم ہوجائے تو سارے مسائل احسن طریقے سے حل ہوجائیں گے۔