جب چوتھی لہر میں کراچی کا شہر 30 فیصد کورونا متاثرین کی زد میں آ گیا تو پھر حکمران احتیاط کرنے کی جانب متوجہ ہوئے۔ جزوی لاک ڈاؤن اور ویکسینیشن کی جب شرائط عائد کی تو ایک روز میں ساڑھے آٹھ لاکھ لوگوں نے ویکسینیشن کروائی۔ ابھی بھی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی اجتماعات پر مکمل پابندیاں کی گئیں اور نہ کی جا رہی ہیں۔
کچھ مذہبی گروہ اور جماعتیں بشمول ان کے کرتا دھرتا بھی ابھی تک ماسک پہننے سے انکاری ہیں۔ پہلی لہر میں سندھ کی حکومت نے سنجیدگی سے جب کام لینا شروع کیا تو وفاق کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں جب پنجاب میں حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کروایا گیا تو متاثرین کی نفری میں کمی آئی، ورنہ اس سے قبل تو حکمران یہ تقریر فرماتے تھے کہ لاک ڈاؤن کرکے ہم غریب لوگوں کو بھوکا نہیں مار سکتے ہیں۔ ایک عرصے تک وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں یہ بیان بازیاں جاری رہیں۔ وفاق یہ کہتا رہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی ہونی چاہیے جب کہ سندھ کی حکومت سختی کرنے پر مصر تھی۔
بہرحال اب تو سب مکمل لاک ڈاؤن کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ایسا عمل ہوا جیساکہ "جب جہاز پانی میں ڈوبنے لگتا ہے تو خیراتی سکے دھڑا دھڑ سمندر برد کیے جاتے ہیں۔" یہ عمل صرف پاکستان میں نہیں ہوا بلکہ دنیا بھر میں ہوا اور ہو رہا ہے۔ جہاں جہاں انسان دوست اور ایک حد تک بائیں بازو اور ترقی پسندوں کی حکومتیں ہیں وہاں سنجیدہ کوششیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔
جب کہ دائیں بازو کی جہاں حکومتیں ہیں انھوں نے اس خطرناک وبا کا تمسخر اڑایا جس کا نتیجہ بھیانک نکلا۔ نیوزی لینڈ، یونان، کیوبا، نیپال، میکسیکو، چین وغیرہ نے سنجیدہ کوششیں کیں جس کے مثبت نتائج نکلے اور نکل رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ نے سخت لاک ڈاؤن کیا، یونان نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں، کیوبا نے تو اسپین، اٹلی اور ایران میں اپنے ڈاکٹروں کے ذریعے علاج کیا، نیپال کی حکومت نے بھی اسے سنجیدہ لیا۔ جب کہ میکسیکو میں بہت زیادہ پھیلا مگر انھوں نے قابو پایا۔ چین نے تو خاصا کنٹرول کیا اور اتنی بڑی آبادی میں پھیلنے سے نہ صرف روکا بلکہ "ووہان" میں آئی وبا کو کنٹرول کیا۔
اب دائیں بازو کی حکومتوں میں بھارت کے وزیر اعظم نے ورلڈ ہیلتھ کی کانفرنس میں اپنی تقریر میں کہا کہ "یہ ہلکی پھلکی وبا ہے ختم ہو جائے گی۔ امریکا نے اسے بہت ہی غیر سنجیدہ طور پر لیا جس کے نتیجے میں آج دنیا میں سب سے زیادہ کورونا متاثرین امریکا کے ہیں۔ برازیل کے صدر کو دو بار جرمانہ لگنے کے باوجود ماسک نہیں لگایا۔ بورس جانسن خود کورونا میں مبتلا ہونے کے باوجود سنجیدگی سے اس وبا کا سامنا نہیں کیا۔ یہی حال آسٹریلیا کا ہے۔ درحقیقت حکمران طبقات کی سوچ ہی نچلے طبقات یعنی عوام الناس میں جاتی ہے۔
جب ہمارے حکمران کورونا وائرس کو سنجیدہ طور پر نہ لیں گے تو عوام کیسے لیں گے۔ جب کوئی وزیر یا مشیر یہ کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن نہیں ہونے دیں گے تو عمومی طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن کورونا سے بھی خطرناک ہے جب ہی تو ہمارے وزیر صاحب اس کے خلاف بول رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں کئی حلقے، گروہ، عوامی جتھے کورونا وائرس کی موجودگی کو ہی نہیں مانتے بلکہ وہ یہ کہنے پر مصر ہیں کہ یہ سب میڈیا کا پروپیگنڈا ہے، کوئی کورونا وغیرہ نہیں ہے۔
پھر جب آپ جس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں تو بیشتر امام ماسک پہنے بغیر ہی امامت کرتے ہیں، پھر ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والے کیونکر ماسک پہنیں گے۔ پھر کسی مذہبی جماعت کا سربراہ ہی اگر ماسک نہیں پہنتا ہے تو اس کے کارکنان اور ہمدرد کیسے پہنیں گے۔ پھر کوئی گروہ جو لاکھوں کی تعداد میں سالانہ اجتماعات میں حاضری دیتا ہے اور کورونا کے وجود سے انکاری ہے پھر اس گروپ کے لوگ یا اراکین کس طرح احتیاط کریں گے۔
سیاسی جماعتیں جب جلسے کر رہی ہیں، ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے، بغیر ماسک لگائے اور فاصلہ رکھے گھنٹوں بیٹھے ہوتے ہیں، تو کیا کورونا پھیلنے کے خدشات نہیں ہوتے۔ آپ ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہوں گے کہ بیشتر سیاسی رہنما ماسک لگائے بغیر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور پریس کانفرنس کے دوران پریس کانفرنس کرنے والے کے گرد جو جتھا اپنی تصاویر کشی کروانے کے لیے کھڑا رہتا ہے وہ بھی کوئی ماسک پہنے ہوئے نظر نہیں آتے۔
پولیس کی نفری جب چھاپے مارتی ہے یا جب گرفتاریاں کرتی ہے تو کوئی بھی پولیس والا ماسک پہنے ہوئے نظر نہیں آتا سوائے فوجیوں کے۔ چونکہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے کلینکس میں ماسک پہنے بغیر مریض کو جانے نہیں دیتے اس لیے وہاں ماسک لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
چند دنوں قبل شاہ فیصل کالونی، الفلاح میں راقم کے دوست کے چھوٹے بھائی جن کی عمر 50 سال تھی کورونا میں انتقال ہوا۔ راقم تعزیت کرنے گیا تو نظر یہ آیا کہ مرحوم کے بڑے بھائی مجمع میں ماسک کانوں میں لٹکائے بیٹھے تھے، منہ اور ناک کھلا ہوا تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ ماسک نہ پہننے پر جرمانہ عائد کرے نہ کہ پولیس والے رقم لے کر چھوڑ دیں۔ جو پولیس والے رقم لے کر چھوڑتے ہیں انھیں جیل بھیجا جائے۔ اس وقت سب سے زیادہ کورونا متاثرین کراچی میں ہیں یہاں ایک ویکسینیشن سینٹر سوک سینٹر میں قائم ہوا ہے۔ جہاں ہزاروں لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ ویکسین لگانے والوں کو تنخواہ ادا نہیں کی گئی۔ جس پر انھوں نے چند گھنٹے کام بند کردیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ ایک شخص زخمی ہوا اور شیشے ٹوٹ گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہیلتھ ورکرز کو تنخواہ ادا کی جاتی اور حکومت کو صرف سوک سینٹر پر ویکسینیشن سینٹر قائم کرنے کی بجائے شہر کے مختلف علاقوں میں ایسا ہی بڑے ویکسینیشن سینٹر قائم کیے جائیں۔ جیساکہ نارتھ ناظم آباد، کورنگی، لانڈھی، اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، ملیر اور کیماڑی وغیرہ میں۔ جس سے ایک ہی جگہ کی بھیڑ ختم ہو جائے گی۔ ویکسینیشن سینٹر پر اگر اتنا رش ہوگا تو پھر ویکسینیشن لگانے سے قبل ہی متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بڑھنے پر لاہور میں کرفیو تو لگایا گیا تھا اور جب کراچی میں لاک ڈاؤن کرنے کا پروگرام بن رہا ہے تو وفاقی حکومت برملا اختلاف کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وفاق، کراچی کے ویکسینیشن مراکز اور اسپتالوں کو وینٹی لیٹرز مہیا کرے اور تمام میڈیکل سہولتیں مہیا کرے۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ چین اور ایران سے مدد کے لیے مزید درخواست کرے کہ وہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پاکستان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے خصوصی توجہ دیں۔ حکومت سندھ فوری طور پر سوک سینٹر کے علاوہ مزید متعدد مراکز قائم کرے۔ وفاق اور سندھ کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی روک کر مریضوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توجہ مرکوز کی جائیں۔ کیوبا کی حکومت سے خدمات کے لیے درخواست کی جائے۔ انھوں نے ایران، اٹلی اور اسپین میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں۔