چین میں جب سوشلسٹ انقلاب آیا تو وہاں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ بالخیرکر دیا گیا تھا۔ ماؤزے تنگ اور ان کی اہلیہ ہفتے میں ایک بار دھان کے کھیتوں میں کھڑے ہوکر کھاد چھڑکتے تھے اور بیچ بوتے تھے، وہ سائیکل پر سوار ہوکر دفتر جاتے تھے۔
چینی صدر لیو شاؤچی کا کہنا ہے کہ اچھا کمیونسٹ وہ ہے جو تکلیف میں آگے آگے ہو اور آرام کے وقت سب کے پیچھے۔ چینی انقلاب کے بعد غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں، اداروں، فیکٹریوں اور ملوں کارخانوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا۔ سماج میں طبقاتی تقسیم اور طبقات میں مختلف پرتوں کی تشریح شاید ماؤزے تنگ سے بہترکسی نے نہیں کی۔ امریکا کو کاغذی شیر قرار دے کر امریکی سامراج اور برطانیہ سے تمام تر سامراجی معاہدات کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ایک عرصے تک عالمی برادری (بقول پروفیسر نوم چومسکی، یو این او، آئی ایم ایف اور نیٹو) نے تسلیم کرنے اور یو این او کا رکن بنانے سے گریزکرتے رہے۔
عالمی سامراج ہر طریقے سے ماؤزے تنگ کے چین کوکچلنے کی سازشوں میں لگا رہا۔ یہ عالمی مزدور طبقہ اور سوویت یونین کی کاوشوں سے انہدام نہ ہوسکا، ہاں مگر انہدام ہوا تو اپنی ہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے۔
آج چین کی " علی بابا " نجی کمپنی دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کی جڑیں ایشیا، افریقا، امریکا اور جاپان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چین کی اسمبلی میں دو سو ارب پتی (یوآن میں ) موجود ہیں، بیس کروڑ کی آبادی بے روزگاری کا شکار ہے۔ پچاس کروڑ شہری روزانہ دو ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ چینی سرمایہ داروں نے سری لنکا کو بندرگاہ بنا کر دی۔ اب اس پر لگے اخراجات بمع سود ادا نہ کر پانے سے اس بندرگاہ کو ایک طویل مدت تک اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
سنگاپورکی مقامی آبادی چینی شہریوں کی منتقلی سے صرف سولہ فیصد رہ گئی ہے۔ ایتھوپیا میں چینی سرمایہ کاری سے وہاں کی مقامی فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ اسی طرح سے چینی سرمایہ دار جنوبی امریکا، مشرق وسطیٰ اور مغربی افریقا میں سرمایہ کاری کی وجہ سے وہاں بیروزگاری کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ اس وقت دنیا میں پلاسٹک اورکوئلے کی آلودگی سب سے زیادہ چین میں ہے۔
پاکستان میں گوادر پورٹ تو بن گیا لیکن وہاں، اسپتال، تعلیمی ادارے، میٹرنٹی ہوم اور پینے کا صاف پانی تک عوام کو میسر نہیں۔ کراچی اورگوادر میں چین نے لیبرکالونیاں بنائی ہیں مگر اس میں پاکستانی نہیں بلکہ چینی مزدور رہتے ہیں۔ اگر چینی محنت کشوں کے حالات زندگی بہتر ہوتے تو ابھی حال ہی میں انتالیس چینی محنت کشوں کی لاشیں برطانیہ کی بندرگاہ پر کنٹینر سے برآمد نہ ہوتیں جوکہ بلغاریہ سے برطانیہ آرہے تھے۔ اس وقت کنٹینر کا درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تھا۔
اس وقت سات سمندر میں امریکا کے اگر اڑسٹھ جنگی بحری بیڑے موجود ہیں تو چین کے بھی بارہ بحری بیڑے موجود ہے۔ سرمایہ کاری کسی بھی ملک کا کوئی بھی سرمایہ دارکرتا ہے خواہ وہ امریکا کا ہو یا چین کا اس کا ہدف عوام کی خوشحالی نہیں بلکہ اپنا منافع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ سرمایہ داری کا بنیادی اصول منافع میں اضافہ کرنا ہے۔ محنت کشوں کے خون پسینہ سے بنی ہوئی اشیا کو بیچ کر کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتے ہیں۔
اس وقت امریکی بونڈز کا سب سے بڑا خریدار چین ہے اور چین کی بڑی مارکیٹیں امریکا اور جاپان ہیں، جب کہ ماؤزے تنگ کے دور میں کوئی بے روزگار تھا، بے گھر تھا، لاعلاج تھا، فاقہ کش تھا، گداگر تھا، منشیات نوش تھا اور نہ بدعنوان۔ مگر آج چین میں وہ ساری سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں موجود ہیں جو عالمی سرمایہ داری میں پائی جاتی ہیں۔ جہاں تک ترقی کی بات ہے تو سرمایہ داری کے نکتہ نگاہ سے ترقی بڑے پل، بڑی گاڑی، لمبی سڑکیں، بڑی عمارتیں وغیرہ کی ترقی ہے جب کہ ماؤزے تنگ کے دور میں سڑکوں پہ کاریں نہیں، سائیکلیں اور بسیں چلتی تھیں۔
بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر مطالبات پر مبنی گزشتہ دس برسوں میں چین میں مزدوروں اور کسانوں نے پچاسی ہزار مظاہرے کیے جن میں بہت سے مطالبات منوائے بھی ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی، کمیونسٹ ہے اور نہ پارٹی۔ حسین خان نام رکھنے سے کوئی حسین نہیں بنتا۔ جنوبی امریکا کا ایک ملک کوسٹاریکا ہے جہاں 1949ء سے اب تک فوج نہیں ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے، ہوا اور شمسی توانائی سے کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ تعلیم کا بجٹ 6.2 فیصد ہے اور خواندگی 97 فیصد ہے۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ آئی ایم ایف کا قرضہ۔ اپنے آپ کو کمیونسٹ کہتا ہے اور نہ سوشلسٹ۔ یہاں عوام آزاد ہیں اور بیروزگار نہیں ہیں۔
یہ سماج آج کی چینی سرمایہ دار ملک کے سماج سے کہیں بہتر ہے۔ ایک اور جنوبی امریکا کا ملک بولیویا ہے، جس نے غذائی خود کفالت کا اعلان کر دیا ہے، ماحولیات قابل مثال ہے، ملک جنگلات سے بھرا پڑا ہے، مہلک بیماریاں ختم ہو چکی ہیں اور یہاں سوشلسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ چینی سرمایہ داری کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔ دنیا میں چار بڑے تانبے کی کانوں میں ایک افغانستان میں ہے جسے چینی سرمایہ دار نے ٹھیکے پہ لیا ہے۔
یہاں ابھی کام شروع نہیں ہوا ہے اس کی حفاظت کے لیے چینی سرمایہ دار شمالی اتحاد کو اربوں روپے کا بھتہ دیتے ہیں۔ سرمایہ دار کہیں کا بھی ہو وہ سستا مزدور اور کم لاگت میں اشیا کی پیداوار چاہتا ہے۔ جیساکہ پاکستانی سرمایہ دار سستی مزدوری پر پیداوار حاصل کرنے کے لیے ٹیکسٹائل کے سرمایہ دار بنگلہ دیش منتقل ہوئے اور امریکی سرمایہ دار بشمول بل گیٹس چین میں سستی مزدوری کے عوض پیداوار کے لیے چین میں سرمایہ کاری کی بھرمارکردی ہے۔
یہ ہے سرمایہ داری کے اصول۔ 1793ء میں انارکسٹ میخائل الیگزینڈر باکونن نے سوئٹزرلینڈ کے گھڑی ساز مزدوروں سے مخاطب ہوکر کہا تھا "بغ ژاوازی (سرمایہ دار) سرمایہ کاری عوام کی خوشحالی کے لیے نہیں کرتا بلکہ مزدوروں کا خون نچوڑ کر اپنے منافع میں اضافہ اور سرمایہ داری کی حیات کو طول دینے کی خاطر کرتا ہے" اس کا ثبوت آج دنیا میں برملا مل رہا ہے۔ جیساکہ دنیا کی کل دولت کی آدھی دولت کے مالک صرف بارہ افراد ہیں جب کہ روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار انسان اس دنیا میں مر جاتے ہیں۔
اگر پینٹاگون صرف ایک سال اسلحے کی پیداوار نہ کرے تو پانچ سال تک دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہو سکتا ہے، مگر سرمایہ دار کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگ بھوک سے ہی کیوں نہ مریں، اسے تو منافع چاہیے۔ اس وقت دنیا میں سامراج کے دو مراکز ہیں۔ ایک امریکا اور دوسرا چین۔ دونوں ہی عوام کا معاشی استحصال کر رہے ہیں اور دونوں قتل و غارت گری بھی کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر چین، سوڈان کے فوجی آمر کی، کاشغر میں اوگرا لوگوں کی، اور ہانگ کانگ کے عوام کی جب کہ امریکا افغانستان میں، عراق میں، یمن میں، کولمبیا، وینزویلا، ایران اور شمالی کوریا میں براہ راست اور بالواسطہ قتل اور مداخلت کر رہا ہے۔ مگر عوام ہر جگہ بڑی جرأت مندی سے لڑ رہے ہیں۔ لبنان، عراق، چلی اور فرانس کی موجودہ عوامی جدوجہد قابل رشک اور قابل مثال ہے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے جہاں ریاستی سرحدیں ختم ہو کر دنیا ایک ہوجائے گی۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔