ویسے تو دنیا بھر میں کرپشن کے الزام میں مختلف ممالک کے صدور اور وزیر اعظم بھی سزائیں پا چکے ہیں، جن میں ملائیشیا، جنوبی کوریا مصر اور تیونس کے صدور اور بے شمار وزرا، جنرلز، نوکر شاہی وغیرہ وغیرہ۔ ان میں برما، سوڈان صومالیہ کے جنرلز شامل ہیں۔
مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کرپشن ہے کیا؟ اکثر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی حقیقی تنخواہوں اور آمدنی کے علاوہ رشوت خوری کے ذریعے بٹورنے والی رقوم کو کرپشن کہتے ہیں تو حقیقت میں معاملات اس کے برعکس ہیں۔ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تنخواہوں کی تقسیم ایک منصفانہ اور ایماندارانہ عمل ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
مثال کے طور پر اگر دال 250 روپے فی کلو ہے تو پندرہ ہزار روپے تنخواہ پانے والا بھی 250 روپے کلو خریدے گا اور ڈھائی لاکھ روپے تنخواہ پانے والا بھی اسی قیمت میں خریدے گا۔ طبقاتی نظام میں یہ سب سے بڑی کرپشن ہے۔
یوں بھی دیکھ لیں کہ پندرہ ہزار روپے تنخواہ پانے والا نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارتا ہے جب کہ 2، 50، 000 روپے تنخواہ پانے والا خوشحالی کی زندگی گزارتا ہے اور عیش کرتا ہے۔ اگر پندرہ ہزار تنخواہ پانے والے کے چار بچے ہیں اور ڈھائی لاکھ تنخواہ پانے والے کے دو بچے ہیں تو وہ مزید اپنی تنخواہوں میں بچت کرے گا۔ یہ طبقاتی نظام کی برائی نہیں بلکہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ اسے ہم تین طریقوں سے ملوں، کارخانوں، دکانوں اور زمینوں پر اطلاق کرکے دیکھ سکتے ہیں۔
ملیں کارخانے: مثال کے طور پر حکومت کی جانب سے کم ازکم تنخواہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی 8گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ 20 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے مگر 90 فیصد مزدوروں کو اس اعلان نامے کے تحت ادا نہیں کی جاتی جب کہ حکومت کی جانب سے زیادہ سے زیادہ تنخواہ کی حد متعین نہیں کی گئی ہے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ مزدوروں کا استحصال ان منیجروں کے ذریعے جتنا زیادہ ہوگا، اتنا ہی زیادہ سیٹھوں کو منافع ملے گا اور پھر ان خدمات کے عوض ان کی تنخواہوں میں 5 سے 10 اور 10 سے 5 لاکھ روپے ہوتی جائیں گی۔
یہ بات قانون کے کھاتے میں کرپشن نہیں ہے جب کہ حقیقتاً کرپشن کا بدترین نمونہ ہے۔ ان منیجروں کو مالکان یونین سازی سے روکنے کے لیے مزدوروں کو برطرف کرنے پر اور تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر انعامات دیتے رہتے ہیں۔ یہ کرپشن اتنے بڑے پیمانے پر موجود ہے جو کروڑوں محنت کشوں کے استحصال پر مبنی ہے۔ دکانوں پر کام کرنے والوں کو 10 ہزار سے زیادہ روپے تنخواہیں نہیں ملتیں، جب کہ دودھ کی دکانوں، ریٹیلرز، مالز، سپر مارکیٹس، فائیو اسٹار ہوٹلز وغیرہ میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہیں آج اس مہنگائی کے دور میں 10 تا 15 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہیں۔
جب کہ منیجروں کی لاکھوں روپے کی تنخواہیں ہوتی ہیں۔ راقم نے خود سپر اسٹور اور فائیو اسٹار ہوٹلز میں مزدوروں کی تنخواہیں پوچھیں تو انھوں نے یہی بتایا۔ ایک نجی ہوٹل میں ایک ٹیبل پر چارکرسیاں لگی ہوئی تھیں، میں نے ایک ویٹر سے سوال کیا کہ ان سب کے کھانے کے بل کتنے آتے ہوں گے اس نے بتایا کہ کم ازکم 10 سے 12 ہزار روپے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیا تنخواہ ملتی ہے تو بتایا کہ 12 ہزار روپے ماہانہ۔ ان ویٹروں کے سپروائزرز سے پوچھا تو اس نے 18000 روپے بتایا۔
جب کہ منیجر کی تنخواہ 3 لاکھ روپے اور سب سے اعلیٰ منیجر کی تنخواہ 10 لاکھ روپے۔ یہی صورتحال دیگر نجی فوڈ چینزکی بھی ہے جو انتہائی زیادہ قیمتوں میں کھانا فروخت کرتے ہیں جب کہ اسی ہوٹل میں کام کرنے والے ویٹرز اور سپلائرز کو مہینے میں ایک دن میں ایک وقت کا بھی وہاں کا کھانا میسر نہیں۔ اور تنخواہیں صرف 11 سے 15 ہزار روپے ملتی ہیں۔ سپر اسٹورز پر آن لائن پر کام کرنے والے جو گھر گھر آرڈر کا سامان پہنچاتے ہیں انھیں اتنی قلیل تنخواہیں ملتی ہیں کہ ناقابل بیان ہے۔
ہم نے بہت سے مزدوروں سے پوچھا تو انھوں نے 12 سے 16 ہزار روپے سے اوپر اپنی تنخواہ نہیں بتائی۔ ہاں مگر کچھ رقم کمیشن کی ضرور بتائی، وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے اور ان کی ڈیوٹی 12 گھنٹے سے کم نہیں ہوتی۔ اس سے بڑی کرپشن اورکیا ہوسکتی ہے کہ سپر اسٹورز اور فائیو اسٹارز ہوٹلز کے مزدور کی تنخواہ 15 ہزار روپے اور مالکان کروڑوں کماتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی کرپشن زمین، جنگلات اور آبی وسائل کی ہے۔
ایک شخص کے پاس ایک لاکھ ایکڑ زمین ہے وہ بہ مشکل 50، 000 ایکڑ زمین پر کاشت کرواتا ہے اور باقی ماندہ یوں ہی پڑی رہتی ہے، جب کہ دوسری جانب کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔ وہ زرعی غلاموں کی طرح اپنی ہی زمین پر غلامی کرتے ہیں۔ جو زمین پر پاؤں نہیں رکھتے ہیں وہ زمین کے مالک ہیں اور جو سارا دن کام میں جتے رہتے ہیں وہ زمین سے محروم ہیں۔ یہ بھی میگا کرپشن کے دائرے میں آتا ہے۔