دل کی بیماریاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دل کے دورے کارڈک اریسٹ اور دل کی دیگر بیماریوں کی وجہ سے اموات میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لائف سیورز ڈے کے موقع پر ماہرین امراض قلب نے تربیتی ورکشاپ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان ڈاکٹروں نے لائف سیورز پروجیکٹ کے تحت 40 شہروں میں 189 سے زائد مساجد میں عام افراد کو بنیاد لائف سیورز کی تربیت فراہم کی۔ جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ماہرین قلب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں 46 اموات دل کے امراض کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ 3 سال قبل یہ تعداد صرف 12 تھی۔ 3 سال بعد تعداد خطرناک حد تک 4 گنا ہوگئی ہے۔
سی پی آر کے ذریعے بہت سی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ یہ عمل متاثرہ شخص میں دل کی دھڑکن، خون کی گردش اور سانس کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دل کے امراض، خاص طور پر بلڈ پریشر کے حوالے سے ریسرچ کے لیے حکومت کو فنڈ مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی مقامی آبادی میں دل کے امراض کے اسباب اور روک تھام کے لیے حکمت عملی بنائی جاسکے۔ ڈاکٹروں کا یہ خطاب کراچی میں پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنس اور پاکستان ہائپر ٹینشن لیگ کے درمیان ہونے والے اجتماع میں کیا گیا۔
پاکستان کے نامور ماہرین امراض قلب کا کہنا تھا کہ مقامی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو بھی ریسرچ کے لیے میڈیکل اسٹوڈنٹس اور ڈاکٹروں کو فنڈز فراہم کرنے چاہیے تاکہ بیماریوں کے مقامی اسباب اور علاج کے حوالے سے تحقیق کی جاسکے۔ اس موقع پر پہلے ہائپرٹینشن ریسرچ ایوارڈ جاری کرنے کے لیے پاکستان ہائپرٹینشن لیگ اور پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنس نے مفاہمت کی اور یاد داشت پر دستخط کیے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ صحت کے شعبے میں تحقیق کے لیے ڈاکٹروں اور محققین کو 3 لاکھ روپے تک کی گرانٹ مہیا کی جائے گی۔ طبی تحقیق کے لیے فنڈز فارمو ریسرچ فورم فراہم کرے گا۔ ماہر امراض قلب پروفیسر محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ طبی تحقیق کسی بھی پاکستانی حکومت کو ترجیح نہیں رہی، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ حکومت نہ صرف اس شعبے کے لیے مزید فنڈز فراہم کرے بلکہ مقامی فارمو انڈسٹری حوالے سے بھی قانون سازی کرکے طبی تحقیق کے لیے نجی شعبے سے فنڈز فراہم کروائے۔
پاکستان میں آج تک کی جانے والی زیادہ تر طبی تحقیق ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان ہائپرٹینشن لیگ کے صدر پروفیسر صولت صدیق نے کہا کہ پاکستان کا ہر دوسرا شخص ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے شہری علاقوں کی خواتین موٹاپے اور بلند فشار خون کی وجہ سے امراض قلب کا شکار ہیں جن کے علاج کے لیے مقامی طور پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
پاکستانی جنرل اینڈ میڈیکل سائنس کے چیف ایڈیٹر شوکت علی جاوید نے کہا کہ اس ایوارڈ اور گرانٹ کا مقصد پاکستان میں طبی تحقیق کا فروغ اور نوجوان ڈاکٹروں کو تحقیق کی جانب راغب کرنا ہے۔
امراض قلب کے عارضے پر ماہرین امراض قلب نے جو قیمتی اظہار خیال، تجزیہ، مشورے اور مطالبات پیش کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں، مگر ان ماہرانہ مشوروں کے علاوہ ایک بڑی بات غذائی ملاوٹ ہے۔ یورپ اور جاپان وغیرہ میں غذائی ملاوٹ نہ ہوتی ہو مگر پسماندہ ملکوں میں تو ہوتی ہے۔
ہاں مگر کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ پسماندہ ملکوں میں بھی کچھ ملکوں میں بہت ہی زیادہ غذائی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ان میں پاکستان شامل ہے۔ ہمارے ہاں تیل، گھی، دودھ، پانی، مسالہ جات اور بیشتر اشیا خور و نوش میں ملاوٹ عام ہے۔ امراض قلب کے لیے سب سے مضر تیل اور گھی کی ملاوٹ ہے۔
یہاں لاکھوں ٹن جانوروں کی چربیاں روزانہ جو جمع کی جاتی ہیں ان میں سے کچھ حصے صابن بنانے کے کام آتی ہیں اور باقی چربیوں سے تیل اور گھی بنایا جاتا ہے۔ یہ عمل پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ فوڈ ڈپارٹمنٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں، انسپیکشن کے شعبے اور حکومتی آلہ کار سے گٹھ جوڑ کرکے یہ گھناؤنے کاروبار کو چلایا جاتا ہے۔
صرف ابراہیم حیدری، کراچی میں چربی سے تیل بنانے والے 12 کارخانے ہیں۔ جہاں جانوروں کی اوجھڑیاں، سری، پائے و دیگر اعضا کی چربیوں کو مشین میں ڈال کر اسے نچوڑا جاتا ہے اور پھر نلکیوں کے ذریعے بہت ہی شفاف نظر آنے والا مایع کپی سے جمع کیا جاتا ہے۔
پھر انھیں کنستر میں جمع کیا جاتا ہے پھر ان کنستر پر خوبصورت سا ریپر چسپاں کیا جاتا ہے، جس کے نیچے جعلی اتا پتا لکھ دیا جاتا ہے۔ انھیں رات کے اندھیرے میں مخصوص ٹھیلے والوں سے لے کر اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نجی ٹی وی چینل پر باقاعدہ تفصیلاً دیکھا بھی جاچکا ہے۔
خوردنی تیلوں کی انسپیکشن کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے، جنھیں کروڑوں روپے تنخواہیں دی جاتی ہیں، مگر یہ انسپکٹرز ملاوٹوں کے چیک اپ کرنے کے بجائے مالکان سے رشوتیں لینے کے لیے دورہ کرتے ہیں۔ اب آپ خود بتائیں کہ چربی کا خوردنی تیل استعمال کرنے سے امراض قلب میں کس خطرناک حد تک اضافہ ہوگا۔ اس معاملے پر ماہرین قلب کو اظہار خیال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عمل کو خطرناک جرم قرار دے کر ایسا آئین پاس کرنے کی ضرورت ہے کہ ان جرائم پیشہ چربی سے خوردنی تیل بنانے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔
اس کی چھان بین اور تحقیق کرنا بہت ہی آسان ہے۔ قسائی کی اور پولٹری کی دکان سے جب چربی ٹرکوں میں لے جائی جاتی ہے تو اسے خاموشی سے پیچھا کرکے منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور ان فیکٹریوں پر چھاپے مارے جاسکتے ہیں جہاں جہاں چربی سے تیل بنایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلوں سے وڈیو حاصل کی جاسکتی ہیں جس پر انھوں نے کارروائیاں کی ہیں۔
دودھ میں جس قسم کی مضر صحت اور خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کی جاتی ہیں اس پر بھی ٹی وی چینلوں نے اور پرنٹنگ میڈیا نے تفصیل بتا چکی ہیں اور اس پر متعدد مضامین بھی چھپ چکے ہیں۔ امراض قلب میں تیزی سے اضافے کی وجوہات میں اور بھی بہت ساری اشیا خورو نوش میں بڑے پیمانے پر ملاوٹیں ہوتی ہیں، اگر حکومت ان مجرمانہ کارروائیوں کی روک تھام کرے تو امراض قلب کے عارضے میں خاصی حد تک پاکستان میں کمی آسکتی ہے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی یا اشتمالی یا پنچایتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ جب برابری کا نظام قائم ہوگا تو مسائل بھی نہ رہیں گے۔