ڈاکٹر تاج لوئر دیر دارو میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد وہ کراچی آ گئے۔ یہاں تقریباً آٹھ سال کا عرصہ گزارا۔ فیملی پلاننگ کے ادارے میں ملازمت کی۔ فیملی پلاننگ کی خصوصی تربیت کی وجہ سے مریض اور بعد میں دوسرے لوگ بھی انھیں " ڈاکٹر" کہنے لگے۔ اور ڈاکٹر کے نام سے شہرت پائی۔
انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا اور پھر وکیل بن گئے اس سے قبل انھوں نے اردو اور سوشیالوجی میں بھی ماسٹر کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرگرم کارکن اور رہنما تھے۔ ڈاکٹر تاج سے میری ملاقات 1974ء میں ہوئی اس وقت ہم سب نیشنل عوامی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی میں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے۔
ڈاکٹر تاج شہید انتہائی ہر دلعزیز، ملنسار اور شفیق انسان تھے، وہ نیشنل پروگریسیو پارٹی، مزدور طلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی اور پختون ویلفیئر جرگہ ( جن کا نام انھی کی تجویز سے مزدور ویلفیئر جرگہ رکھا گیا ) کے رہنما تھے۔ ڈاکٹر تاج ویتنام پر امریکی بمباری کے خلاف نکالے جانے والے جلوس سے لے کر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد تک کراچی میں بہت ہی فعال اور متحرک رہے۔
فرنٹیئر کالونی (کراچی ) کے عوام نے ایک تنظیم، پختون ویلفیئر جرگہ کے نام سے تشکیل دی تھی، اس کے ایک اجلاس میں ڈاکٹر تاج نے تجویز رکھی کہا " ہم سب پختون کیوں نہ ہوں بنیادی طور پر ہیں تو سب مزدور " اس دن سے اس جرگہ کا نام مزدور ویلفیئر جرگہ ہو گیا۔ اس تنظیم نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے کام کیے جن میں خاص کر " پیشاب خانہ " بہت ہی کارآمد اور مشہور ہوا۔
مزدور، طلبہ، کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف بنارس چوک پر ایک مظاہرہ ہوا، اس مظاہرے کے دوران چند شر پسند وں نے مظاہرے کو درہم برہم کرنے کے لیے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر عوام سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگے کہ یہ کمیونسٹ ہیں ان کے مظاہرے میں شرکت نہ کرو، انھی میں سے ایک انتہاپسند مظاہرین کے ساتھ پر تشدد رویے سے پیش آیا۔ بعد ازاں اسی مظاہرے میں کامریڈ آصفہ رضوی ایڈووکیٹ بھی شریک تھیں۔
ڈاکٹر تاج کے قریبی دوستوں میں عزیز الرحمان، تاج پشاوری، عبدالہادی کاتب، شمیم اور نجم الحسین وغیرہ ہوا کرتے تھے جب کہ ہمارے رہنما جاوید شکور ہوتے تھے۔ افغان ثور انقلاب کے بعد وہاں کا خلق نامی رسالہ جو کہ پشتو میں ہوتا تھا پاکستان آتا تھا، فوجی آمریت کی سختی کی وجہ سے ہم صبح چار بجے پشتون بستیوں میں لوگوں کے گھروں میں یہ رسالہ پھینکا کرتے تھے۔
اس وقت کے میئر عبدالستار افغانی نے اسلام آباد میں منعقدہ کونسلروں کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ " کراچی میں غیر ملکی ایجنٹ رات کی تاریکی میں غیر ملکی رسالے عوام میں تقسیم کر کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ " جب کہ ہم عوام کو افغان ثور انقلاب (اپریل انقلاب) یا سوشلسٹ انقلاب کے ثمرات سے آگاہ کرتے تھے۔ اس انقلاب کے بعد افغانستان میں جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، قرضوں کا سودی نظام ختم کردیا گیا تھا، بردہ فروشی ( ولور ) کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا، 30 جریپ سے زیادہ زمینیں کسانوں میں بانٹ دی گئی تھیں۔
یہ عوام دوست اقدامات چونکہ عالمی سامراج کے خلاف کیے جا رہے تھے، اس لیے انھوں (عالمی سامراج ) نے پاکستان میں امریکی، سی آئی اے کی نگرانی میں پاکستان کی سرزمین سے "ڈالر جہاد " شروع کروایا، اور اب انھیں کو دہشت گرد کہتے ہیں، اور قطر میں مذاکرات بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر تاج ہرگھڑی اور ہر موقع پر کمیونسٹ سماج کی تشکیل کی تشہیر کرتے تھے۔ وہ 1978ء کے بعد جب اپنے آبائی شہر لوئر دیر چلے گئے تو وہاں مریضوں کا مفت علاج اور غریبوں کے مقدمات مفت لڑا کرتے تھے۔ ڈاکٹر تاج ایڈووکیٹ میدان تحصیل کے تیمر گرہ کی عدالت میں وکیل تھے۔
لوئر دیر کے ایک رجعتی جماعت نے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے ڈاکٹر تاج کو قتل کروایا اور قاتلوں کو بیرون ملک بھجوا دیا، اس لیے کہ میدان تحصیل کے عوام ڈاکٹر تاج کے حامی ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ عام انتخابات میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ ڈاکٹر تاج جب تیمرگرہ کی عدالت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے بعد واپس آ رہے تھے تو انھیں کرائے کے قاتلوں سے قتل کروا دیا گیا۔ رجعتی قوتوں نے یہ سمجھا تھا کہ ڈاکٹر تاج کو شہید کرنے سے کمیونسٹ تحریک ختم ہو جائے گی، یہ ان کی بھول بلکہ احمقانہ سوچ تھی۔
آج کے فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک سے ہانگ کانگ کی پیلی چھتری تحریک، کشمیریوں کی حمایت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی جانب سے دہلی میں لاکھوں کا جلوس، جنوبی اور شمالی وزیرستان سے دو اراکین قومی اسمبلی کے لیے کامیابی اس کا ثبوت ہے کہ کامریڈ ڈاکٹر تاج کی انقلابی تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ اپنی پوری آب و تاب سے آگے کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔ اب بھی نیپال، کیرالا، وینیزویلا، بولیویا، کیوبا، بیلاروس، منگولیا میں انقلابیوں، کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی حکومتیں ہیں۔ جب کہ سوڈان، مالی، الجزائر، لیبیا، عراق، کیٹالونیہ میں عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدو جہد میں برسرپیکار ہیں۔
پاکستان میں ہر روز مہنگائی میں اضافے سے عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ اس بے چینی سے عوام اکتا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے اکثر سڑکوں پہ نکل رہے ہیں۔ کہیں پشاور میں ڈاکٹرز، کہیں کراچی میں نرسس، کہیں پنجاب میں کسان، کہیں سندھ میں گنے کے کاشت کار اور کہیں کراچی میں استادوں کا مظاہرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ چھو ٹی چھوٹی چنگاریاں بھڑک کر آگ لگا سکتی ہیں۔
اور پھر یہی شعلے انقلاب کی راہیں اختیار کر سکتے ہیں۔ یقینا وہ دن جلد آ نے والا ہے جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں عوام کوکوئی بھی انصاف نہیں مل سکتا ہے اور نہ مہنگائی ختم ہوسکتی ہے بلکہ پاکستان کی معاشی صورتحال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ اورفیکٹریاں دوسرے ممالک میں شفٹ کر رہے ہیں۔
جس کی وجہ سے بدترین بے روزگاری ملک میں پھیل رہی ہے۔ مزدور طبقے کا جینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ فیکٹریاں اور پیداواری یونٹس کی بندش بیروزگاری کا ایسا سیلاب لارہی ہے جس کے آگے کوئی بند باندھنے کی حکومت سنجیدہ کوشش نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام سے ہی عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔