کیا پہلی بارکراچی کے علاقے مہران ٹاؤن، کورنگی میں واقع فیکٹری میں مزدور جھلس کر جاں بحق ہوئے؟ مزدوروں کا قتل مختلف طریقوں سے مختلف ملکوں اور خطوں میں کیا جاتا رہا ہے۔
ایک تو معاشی قتل، بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنا، معدنیات کی کانوں میں دب کر مرنا، جنگوں میں مرنا، زلزلوں، طوفانوں، گرمی اور سردی میں ٹھٹھرکر مرنا اور سب سے زیادہ بھوک سے مرتے ہیں۔ قدر زائد کو چوری کرکے سرمایہ دار خود تو ارب پتی اور کھرب پتی بن جاتا ہے جب کہ مزدور فاقوں سے مر جاتے ہیں۔
کم وقت میں زیادہ کام لینے سے مزدور کی حیات تنگ ہو جاتی ہے اورکم تنخواہ دے کر زیادہ وقت کام لینے سے بھی وہ جوانی میں ہی بوڑھا لگتا ہے۔ یہ تو رہا مزدوروں کا عالم گیر استحصال۔ جہاں تک پسماندہ ملکوں میں مزدوروں کے استحصال کا تعلق ہے تو وہ انتہائی ہیبت ناک اور خوف ناک ہوتا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا میں برملا اور دھڑلے سے استحصال ہوتا ہے۔
سانحہ کورنگی سے قبل اسی کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری میں آگ سے جھلس کر اور دم گھٹنے سے 268 مزدور شہید ہوئے تھے اور پھر گڈانی شپ یارڈ میں شپ بریکنگ کے دوران 10 مزدور جھلس کر شہید ہوئے تھے۔ ان دونوں اندوہناک سانحے انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے ہیں۔
ان میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی کاوشوں سے معاوضہ تو ادا کیا گیا لیکن ابھی تک مزدوروں شہادت کے قصور واروں کی شناخت ہوئی اور نہ کوئی سزا۔ ایسی صورت حال کورنگی مہران ٹاؤن میں سفری بیگ بنانے والی فیکٹری کے شہیدوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔ کراچی اور پاکستان بھر میں فیکٹریوں، ملز، کارخانوں اور بیشتر صنعتی اداروں میں حادثات سے بچنے کے لیے قبل از وقت احتیاتی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں۔ عالمی مزدور قوانین کے مطابق آگ لگنے پر خبرداری کی گھنٹی بجانا ضروری ہے۔
ہر فیکٹری کے عقب میں نکلنے کا راستہ رکھنا ضروری ہے۔ فائر فائٹنگ کے آلات، دیوار توڑ کر نکلنے کا بندوبست، کھڑکیاں اور دروازے کشادہ ہوں اور حفظان صحت کے مطابق فیکٹری کی تعمیر ہونی چاہیے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد تو صوبائی، وفاقی حکومتوں، لیبر ڈپارٹمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فائر بریگیڈروں اور فیکٹری مالکان کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھی، مگر اب بھی 90 فیصد ملوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کے تحفظات کے لیے عالمی لیبر لاز پر قطعی کوئی عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
حالیہ کورنگی کی فیکٹری میں پیچھے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، چھت پر جانے کی مزدوروں نے کوششیں کیں تو اوپر کے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ مرکزی داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ فیکٹری کی کھڑکیوں میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں جہاں سے کوئی چھلانگ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد بھی انتظامیہ مزدوروں کو فیکٹری سے اندر کا مال نکالنے پر زور دیتی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ مزدوروں کی زندگی سے زیادہ مال کی فکر تھی۔ آگ لگنے کے بعد لوگوں نے فائر بریگیڈ کو 30 سے 35 کالیں کیں مگر فائر بریگیڈ کی گاڑی کوئی ڈھائی گھنٹے کے بعد آئی۔
حکومت سندھ نے صنعتی علاقوں کے لیے الگ سے خصوصی فائر بریگیڈ کی ٹیم شکیل دی تھی، مگر جب فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں تو ان کے پاس پانی کی کمی تھی۔ آگ لگنے کے بعد سے بجھنے تک کوئی وزیر، کوئی مشیر یا حکام اعلیٰ نہیں پہنچے۔ ہاں مگر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور اور فیڈریشن سندھ کے صدر گل رحمن اور سعیدہ بروقت پہنچے۔ مزدوروں کے لواحقین سے ملے، ایدھی سینٹر کے اہل کاروں سے ملاقات کی اور احتجاج کیا اور طبقاتی جدوجہد کے رہنما جنت حسین بھی موقع پر موجود تھے۔
بعدازں فیکٹری کی آگ بجھنے کے بعد نماز جنازہ میں مرتضیٰ وہاب، وقار مہدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فیکٹری قانونی تھی یا غیر قانونی۔ مسئلہ ہے مزدوروں کی جان کی حفاظت کا نظام ہونا ILO اور پاکستان لیبر لاز کے مطابق لازم ہے کہ ہر فیکٹری میں فائر الارم، فائر فائٹنگ کے آلاگ، فیکٹری سے نکلنے کا محفوظ راستہ، کھڑکیاں کشادہ اور بغیر سلاخوں کے ہوں، چھت پر جانے کا راستہ کشادہ اور گزرنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
جب بلدیہ ٹاؤن سانحے کے ذمے داروں کی شناخت آج تک نہیں ہوئی اور نہ کوئی سزا کا مرتکب ٹھہرا۔ پھر مزدور اس سانحے کے بہتر نتائج کی کیونکر توقع کریں۔ اس سلسلے میں بہت سی سیاسی، سماجی، مذہبی اور ٹریڈ یونین نے مذمتی بیانات دیے ہیں لیکن شہید مزدوروں کے قاتلوں کی گرفتاری اور جلدازجلد انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بہت کم جماعتیں کر رہی ہیں۔
فیکٹری میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ پہلی اور دوسری منزل پر موجود ملازمین کو نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور وہ بے بسی کی موت مارے گئے۔ فائر افسر سعید اللہ کے مطابق جیسے ہی آگ کی اطلاع ملی اور اس کی شدت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور شہر بھر سے فائر بریگیڈ کے عملے کو طلب کرلیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیاں، اسنارکل اور باؤزر کے علاوہ واٹر ٹینکروں کی مدد سے پانی فراہم کیا گیا۔ بدقسمتی یہرہی کہ فیکٹری میں جانے اور آنے کا ایک ہی راستہ ہے جب کہ کھڑکیوں پر گرل لگی ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم فائر بریگیڈ کے عملے نے سخت جدوجہد کے بعد فیکٹری کی ایک دیوار توڑ کر آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھیں۔
فیکٹری گراؤنڈ پلس ٹو میں صمد بونڈ اور مٹی کا تیل بھی رکھا تھا، جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلی۔ آگ پر قابو پانے کے دوران کرین کی مدد سے فیکٹری کی پہلی اور دوسری منزل پر جان بچاتے ہوئے دم گھٹنے اور جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کو نکالا گیا۔ جب لاشیں جناح اسپتال پہنچنے لگیں تو اسپتال انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ وہاں مزدوروں کے لواحقین پہنچ گئے جہاں کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
ایدھی اور چھیپا کے 3 رضاکار آگ بجھانے اور مزدوروں کو نکالتے ہوئے دم گھٹنے کی وجہ سے چھت سے زمین پر گر پڑے جنھیں جناح اسپتال پہنچایا گیا، اگر شروع میں ہی دیوار توڑ دی جاتی تو مزدوروں کو زندہ نکالا جاسکتا تھا۔ یہ بھی حکومت انتظامیہ کی شدید غلطی بلکہ جرم ہے کہ شروع میں ہی دیوار کیوں نہیں توڑی گئی۔
جب کوئی صاحب جائیداد طبقات کا شخص مرتا ہے تو اس کے لواحقین کے پاس جاکر تعزیت کی جاتی ہے اور صدر، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام ان کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، مگر جب مزدور مرتا ہے تو ان کے لواحقین کے پاس صدر اور وزیر اعظم جاتے ہیں اور نہ جنازے میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ ہے طبقاتی نظام۔ یہ نظام ہی سرمایہ داروں اور صاحب جائیداد طبقات ہے وہ کیونکر مزدوروں کی شہادت پر اتنی تکلیف کریں گے۔