Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Indus Valley

Indus Valley

وادی سندھ کا علاقہ موئن جو داڑو، جہاں چھبیس سو سال قبل از مسیح تک کسی قسم کے ہتھیارکی نشانی تک نہیں ملی، یہ ہتھیاروں سے پاک سماج تھا۔

یہاں کے لوگ نے ہزاروں سال پر امن زندگی گزاری۔ اسلحے نے فاتحین پیدا کیے جنھوں نے انسانوں کی نسل کشی کی۔ مہا بھارت سے دوسری عالمی جنگ تک کروڑوں انسانوں کا قتل ہوا۔ بیشتر شہروں کوکھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔ کروڑوں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو اغوا کیا، ریپ کیا اور پھر کنیز بنا کر فروخت کر دیا، یہ ہیں ہتھیاروں کے راز۔ جوہری اسلحے کی تخلیق سے ہم نے تمام حدود پار کرلی ہیں۔

ایک ہزار آٹھ سو نیوکلیئر وارہیڈز دنیا کو منٹوں میں نیست ونابود کر سکتے ہیں۔ انیس سو پچپن میں دنیا کے گیارہ معروف ترین سائنسدان اور محققین نے اپنے دستخطوں سے دنیا بھر کے حکمرانوں کو خبردارکیا تھا، دستخط کرنے والوں میں برٹرینڈ رسلز اور آئین اسٹائن بھی شامل تھے۔ انھوں نے اس اپیل میں کہا تھا کہ اگر آپ اسلحہ کو تلف کر دیں اور مزید پیدا نہ کریں تو دنیا کو جنت بنا سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کر پائیں تو دنیا اجتماعی موت کے لیے تیار رہے۔ معروف تاریخ دان ’ہچکاک، کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ خواتین سے بارہا ریپ کیا گیا۔ کچھ اور بہت سوں کے ساتھ ساٹھ سے ستر بار ریپ کیا گیا۔

وادی سندھ کا فلسفہ یہ تھا کہ انسان ہتھیاروں سے آزاد سماج قائم کرسکتا ہے۔ شاید دنیا کی تاریخ میں اتنے قدیم زمانے میں کسی سماج نے بادشاہت کی نفی کی ہو جس طرح موئن جوداڑو کے عوام نے کی۔ جب دنیا میں بادشاہوں کے محلات، مزارات اور مقبرے وغیرہ تعمیرکیے جاتے تھے تو موئن جوداڑو کے لوگ ان رقوم کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرتے تھے۔

یوسف شاہین کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلی بار موئن جوداڑو کے عوام نے پہیہ والی بیل گاڑی کا استعمال کیا۔ وہ میسوپوٹینیا، مصر اور چین سے تجارت کرتے تھے تجارتی معاہدے کے وقت وہ اپنے مقامی خدا ’ورنا، کو ضامن بناتے تھے مگر ان کا کوئی باقاعدہ خدا نہیں تھا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے امیروں کو سونے کے مقبرے میں نہیں دفنایا یا انھوں نے مردوں کی کوئی ممی بنائی، سلطان بنایا اور نہ کوئی خونریز جنگیں کیں۔

ان میں مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین تھا مگر وہ اس کی تیاری میں رسوم ادا کرتے یا رقم خرچ کرنے کی بجائے زندہ لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتے تھے، ہاں مگر بہت سے سوالوں کے جواب ان کی تہذیب سے نہیں ملتے۔ پیلیولیتھک (پتھر کا دور) پچیس ہزار سال سے دو لاکھ پچاس ہزار سال قبل از مسیح تک کا سراغ ملتا ہے، جب کہ نیولیتھک (پتھرکا آخری دور) دس ہزار آٹھ سو سے تین ہزار تین سو سال قبل از مسیح تک کا سراغ پایا گیا۔ چیلکولیتھک (تانبا کا دور) تین ہزار پانچ سو سال سے پندرہ سو قبل از مسیح کا ہے۔ کانسی کا دور تین ہزار تین سو سے تیرہ سو سال قبل از مسیح اور لوہے کا دور پندرہ سو سال تا دو سو سال قبل از مسیح کی تحقیق ہوئی ہے۔

قدیم ہڑپہ دور تین ہزار تین سو تا دو ہزار آٹھ سو سال قبل از مسیح اور اس تسلیم شدہ دور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اینتھروپو لوجسٹ جان کینوئر دعویٰ کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اس وقت کے عوام نے اجناس کا ذخیرہ کتنے محفوظ اور معقول طریقے سے کرتے تھے۔ معیار زندگی کو بڑے وقار و بلندی سے چلاتے تھے۔ ہڑپہ دوسرے درجے کا شہر تھا۔ موئن جوداڑو سے ہی اس کی رہنمائی کی جاتی تھی۔

موئن جوداڑو میں تقریبا چالیس ہزار کی آبادی جو اپنی بھرپور معقول زندگی گزارتی تھی۔ شفاف پینے کا پانی، بیشتر مکانوں میں نکاسی آب اور شفاف پانی کے سات سو کنویں موجود تھے۔ بہت سے مکانوں میں تہہ خانے بھی بنے ہوئے تھے۔ عمارتیں دو منزلوں کی بھی ہوا کرتی تھیں۔ انڈس ویلی کے مصنف یوسف شاہین محقق، ماہر لسانیات، تاریخ دان، صحافی اور شاعر بھی ہیں۔

انھوں نے پرائیڈ آف پر فارمنس انیس سو پچانوے میں اور ستارہ امتیاز دو ہزار سولہ میں حاصل کیا۔ ہیروڈوٹس کے مطابق سندھیان کپڑے بڑے پیمانے میں پانچ سو قبل از مسیح میں مصر اور میڈیٹیرین خطے میں مسلین نام سے بھی استعمال ہوتے تھے۔ کاشت کاری کے دور میں موئن جو داڑو میں تل، لہسن، مٹر، جو، گندم اور تربوز پیدا ہوتے تھے اور برآ مد بھی کیا جاتا تھا۔ کپاس کی کاشت یہیں سب سے پہلے شروع ہوئی دھاگہ بنانے کی مشین اور کپڑا بنانا یہاں سب سے پہلے شروع ہوا حضرت ابراہیم جس ’ار، تہذیب میں پیدا ہوئے اور حضرت عیسیٰ بھی سندھیان کپڑے پہنتے تھے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ وہاں کوئی بادشاہ یا پجاری رہا ہو، عبادت گاہ کی کوئی نشانی یا ثبوت نہیں ملا۔ ہاں مگر رقص کرتی ہوئی لڑکی کا جو مجسمہ ملا ہے وہ سولہ سال سے زیادہ کی نہ ہوگی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت لوگ ہنر و فن کے ساتھ اپنی تہذیب کو بھی اجاگر کرتے تھے اور زندگی کو پرلطف بناتے تھے۔ بحر عرب سے ساحل بلوچستان، افغانستان اور پھر ساحل گجرات تک تجارتی پانی کے جہاز دریائے سندھ تک آیا جایا کرتے تھے۔ مگر ان تمام آمد و رفت کے درمیان بھی مذہب کی کوئی نشانی نہیں ملی۔ وادی سندھ میں ساحل کے مختلف مقامات پر اس وقت ایک ہزار باون چھوٹے بڑے شہر آباد تھے۔

موئن جوداڑو سے جو مہریں ملی ہیں ان میں بیل طاقت کا منبع معلوم ہوتا ہے، ہاتھی تجارت کے لیے سفری علامت سمجھا جاتا تھا، بھینس کو دفاع کے لیے سب سے بہتر جانور کی علامت سمجھا جاتا تھا، شیر چھوٹے انتظامی افسروں کی علامت ہوگی۔ وادی سندھ کے ماہر جان روچ، گریگوری پوسیہل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ شہر، محلوں، عبادت گاہوں اور مقبروں سے مبرہ تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر تجارت کے معاملات میں چاک و چوکنا انتظام رکھتا تھا۔ جان مارشل اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ موئن جوداڑو میں کوئی عبادت گاہ رہی ہو۔

بہت سے سوالوں کے جواب اب بھی نہیں ملتے۔ ان کی زبان کیا تھی؟ جو مہریں ملی ہیں وہ کون سے پیداوار کی نشان دہی کرتی ہیں؟ یا پھر ان کے ٹیکس ادا کرنے کے ریکارڈ کی کوئی ثبوت نہیں ملتا؟ وہ کس اتھارٹی کو ٹیکس ادا کرتے تھے؟ دنیا بھر کے آثار قدیمہ کے ماہرین یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ موئن جوداڑو کا سماج مذہب سے آزاد سماج تھا۔ بعدازاں لوگوں نے مذہبی عقیدوں کو اپنایا۔ لوگوں نے رضا کارانہ طور پر ایک خدا یا بہت سے خداؤں کو ماننے لگے۔ ان تمام مندرجہ بالا ثبوتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موئن جوداڑو ایک اسٹیٹ لیس سوسائٹی تھی۔ یہاں کوئی حکومت، فوج، مذہب، عبادت گاہیں، مقبرے، محلات، بادشاہت، اسلحے اور وطنیت سے پاک آزاد سماج قائم تھا۔ آج کے دور میں وہاں کے سماج کو کمیون یا کمیونسٹ نظام کہا جا سکتا ہے۔

انڈس ویلی کے مصنف یوسف شاہین کا کہنا ہے کہ یہ نظام کمیونسٹ نظام سے بھی کوئی بہتر نظام تھا۔ یہ سماج پورے جنوبی ایشیا کا اس دور کے اعلیٰ ٰتہذیب یافتہ اور خوشحال سماج تھا۔ یہاں لوگ اخلاقیات پر مبنی سماج کی تشکیل دی اور اسے ہزاروں سال قائم رکھا۔