ویسے تو جو آج ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں کل پسماندہ ترین تھے۔ مگر اسلحے کے بل بوتے پر فاتحین بن گئے اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے وسائل اور سونا چاندی کو لوٹ کر آج ترقی یافتہ بن گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بہت سے مسائل حل بھی کر لیے ہیں۔ وہاں پانی کا مسئلہ بھی نہیں ہے اور پسماندہ ملکوں میں جہاں پانی ہے بھی وہاں مقامی نوکر شاہی اور مافیا لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے۔
ایک جانب وہ پانی فروخت کرکے ارب پتی بن رہے ہیں تو دوسری جانب لوگ پانی سے ترس رہے ہیں۔ پسماندہ ممالک عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بجائے اسلحے کی پیداوار اور تجارت پر تقریباً سارے بجٹ کی رقوم خرچ کر دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو اس شعبے میں دنیا کے ٹاپ ٹین میں شمار کیا جاتا ہے جب کہ دنیا کے غریب ترین چند ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ یورپ، امریکا، آسٹریلیا، جاپان، عالم عرب اور اسرائیل میں پانی کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسرائیل پینے کا 90 فیصد پانی گٹر کے ری سائیکلنگ کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور باقی پانی سمندر کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اسی طرح سے پینے کا پانی سعودی عرب سمندر کے ری سائیکلنگ پانی سے حاصل کرتا ہے۔ بلغاریہ اور کئی یورپی ممالک چشمے کے پانی کو برآمد بھی کرتے ہیں۔ روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک خود کفیل ہیں۔
ہم سمندر کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے پینے کا پانی عوام کو فراہم کریں اور اس پانی کے بہاؤ سے بجلی بھی پیدا کریں تو ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ پھر غیر پیداواری اخراجات، رشوت خوری، قبضہ مافیا اور مختص شعبوں کے بجٹ کولیپس ہونے سے روک کر بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو موجود پانی کو بھی عوام تک نہیں پہنچایا جاتا ہے بلکہ راستے میں ہی پیسے لے کر پانی بیچ دیا جاتا ہے۔ کراچی میں تو پانی چور مافیا سرگرم ہے۔ جیساکہ گرمی بڑھتے ہی پانی چور مافیا سرگرم ہو گیا۔
مسمار کیے گئے غیر قانونی ہائیڈرنٹس دوبارہ کھل گئے۔ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرکے فروخت کیا جانے لگا۔ سرکاری کریش ہائیڈرنٹ لانڈھی کو عام شہریوں کے لیے بند کرکے من پسند وقت پر کھولا جا رہا ہے۔ وزیر بلدیات کے نام پر شہر میں پانی چور مافیا گورکھ دھندے میں مصروف ہو گیا۔ شہر میں پانی غیر منصفانہ تقسیم سے رمضان کے دوران پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی پانی کی طلب بڑھنے پر پانی چور مافیا بھی سرگرم ہو گیا ہے۔
پانی چور مافیا کو مبینہ طور پر واٹر بورڈ کے سینئر افسران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی ہدایت پر ایک ماہ قبل منگھو پیر میں غیر قانونی ہائیڈرنٹ مسمار کیا گیا تھا تاہم مبینہ طور پر واٹر بورڈ کے افسران کی ملی بھگت سے یہ ہائیڈرنٹ دوبارہ کھول دیا گیا ہے جو مرکزی لائن سے پانی چوری کرکے دھڑلے سے ٹینکروں کے ذریعے فروخت کر رہا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
اسی پانی چور مافیا نے کریش ہائیڈرنٹ لانڈھی پر کئی دن شہریوں کے لیے دن کے اوقات میں پانی کی فراہمی بند کی ہوئی ہے جب کہ شہریوں کو دن کے بجائے رات کو پانی کے ٹینکر فراہم کیے جا رہے ہیں لیکن وہ شہریوں کی ضرورت پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ کرش ہائیڈرنٹ پہلے 18 گھنٹے چلتا تھا جس کو اب صرف رات کے اوقات تک محدود کردیا گیا ہے۔ کریش ہائیڈرنٹ لانڈھی پر دن کے اوقات میں سیکڑوں شہری احتجاج کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ پانی چور مافیا مختلف علاقوں کا پانی بھی بند کرکے ایک نجی کمپنی کو پانی فراہم کر رہا ہے۔
ان علاقوں میں 15دن سے پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہے۔ شہر میں پانی چور مافیا نے گرمیاں شدید ہوتے ہی پانی کی تقسیم کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔ ان علاقوں کے علاوہ بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، نیو کراچی، لیاقت آباد، کیماڑی اور شاہ فیصل کالونی میں بھی کچھ علاقوں میں پانی رات کو ڈیڑھ گھنٹے کے لیے کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ یہ پانی چوری کیا ملی بھگت ہے یا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر کی جانب ذرا نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ ہمارے ہاں پانی کی کوئی کمی نہیں۔ کشمیر، پختونخوا اور گلگت بلتستان میں جتنی بارش ہوتی ہے اور برف باری ہوتی ہے اس کے ذریعے ہم سیکڑوں ہزاروں جگہوں پر پانی کا ذخیرہ کرسکتے ہیں اور پھر ضرورت کے وقت اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔