ستر کی دہائی میں یعنی 50سال قبل کراچی کا ٹرانسپورٹ کا نظام آج سے بہتر تھا۔ اس شہر میں ٹرام گاڑی، بڑی بسیں اور سرکلر ریلوے ٹرین اتنی چلتی تھیں کہ مسائل آج کی طرح گمبھیر نہیں تھے۔ ٹرام گاڑی مرکزی شہر کے رہائش پذیر عوام کی مختصر فاصلے کی ضروریات پوری کرتی تھی۔
بڑی بسیں خاص کر ٹو کے، فور کے، فائیو سی، فائیو بی، سکس، سکس اے، سکس بی، فور ایم، فور ایل، ون ڈی، ون سی، پندرہ سی، پندرہ اے، پندرہ، بعدازاں منی بسیں سولہ، سولہ ڈی، زیڈ ٹو، زیڈ، سولہ ڈی، ڈی این، این ٹو، ڈبلیو ایلون، پھر کوچز نیشنل، مہران، دوست، ہزاروں کی تعداد میں چلتی تھیں۔ ریلوے سرکلر ٹرین ملیر ماٹا پان سے سارا شہر چکر کاٹتی تھیں جن میں گلشن اقبال، لیاقت آباد، ناظم آباد، بلدیہ، سائٹ یعنی سب علاقے کو کور کرتی تھیں۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد سرکلر ٹرین مل جاتی تھیں، اب تو سلسلہ ہی الٹ ہو گیا ہے۔
کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزمان کہتے ہیں کہ اس وقت کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہر میں 33 لاکھ موٹر سائیکلیں، 15 لاکھ کاریں چلتی ہیں جب کہ 22 ہزار بسوں میں سے اب صرف 6 ہزار چل رہی ہیں۔
چار بلین ڈالر خرچ کر کے سرکلر ٹرین چلانے کی ضرورت نہیں، صرف 55کروڑ ڈالر کے خرچ میں جدید نہ سہی کھٹارا پرانے ماڈل کی سرکلر ٹرین چلا کر ہم ایک سال میں 21 کروڑ لوگوں کو سفر کی سہولت مہیا کرا سکتے ہیں۔ نجی اور سرکاری ٹرانسپورٹ خاص کر سرکا ری ٹرانسپورٹ کو ایک گہری اور طویل مدتی سازش کے تحت ناکارہ کیا گیا جس میں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی بھرمار ہو اور ڈیزل کی ناپید ہو۔
(اس وقت ڈیزل سستا اور پیٹرول مہنگا تھا) پھر شہر بھر میں پلوں کا جال بنا دیا گیا۔ اس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گمبھیر ہو گیا۔ ایک کار میں دو تین افراد سفر کرتے ہیں جب کہ بسوں میں سو سے زیادہ، ٹرام میں دو سو اور سرکلر ٹرین میں ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں۔ اس ہیرا پھیری سے آئل مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور ریل کے تعمیرات کے ٹھیکیداروں اور وزیروں کی چاندی ہو گئی۔ کراچی میں ایسے متعدد پل ہیں جن پر سے سارے دن میں چند کاریں ہی گزرتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ تو تقریبا ناپید ہیں۔
دنیا کی بیشتر ملکوں یہاں تک کہ یورپ میں بھی ڈبل ڈیکر بسیں، ٹرام گاڑی اور سرکلر ٹرین رواں دواں ہیں۔ چین کے 161شہروں میں سرکلر ٹرینیں چلتی ہیں۔ بڑی بسوں کی سروسزکے اعلانات برسوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ وہ کبھی چل بھی جاتی ہیں توکرایہ زیادہ ہوتا ہے، بسیں بیحد کم ہوتی ہیں اور ان کی چلنے کی میعاد چند مہینے ہی ہوتی ہیں پھر وہ نہ جانے کہاں لاپتہ ہو جاتی ہیں۔ ٹرام گاڑی چلانے کے لیے ہمارے شہر میں بیحد گنجائش ہے۔
برصغیر میں اتنا کشادہ شہرکہیں نہیں ہے۔ ایک جانب بلدیہ اور اورنگی ٹاؤن سے بلوچستان کے درمیان سیکڑوں کلومیٹرکی جگہیں خالی پڑی ہیں تو دوسری جانب سہراب گوٹھ اور ٹھٹہ سے حیدر آباد تک خالی جگہیں پڑی ہیں۔ شٹل بسیں چلانے کے لیے لانڈھی کورنگی، نارتھ ناظم آباد سے سرجانی ٹاؤن، شیرشاہ سے بلدیہ ٹاؤن اور نرسری سے ملیر تک کشادہ راستے موجود ہیں۔ اب آ جائیں سرکلر ٹرین کی جانب۔ سرکلر ریلوے ٹرین کی پٹریاں بچھی پڑی ہیں۔
جاپان اور چین بار بار آفر دے چکے ہیں۔ جاپان اور چین بنا کے دیگا تو سارا سامان بھی اپنے ہاں سے لائیگا۔ اسے ہم خود بنا سکتے ہیں۔ خواہ یہ پرانے ماڈل کا کیوں نہ ہو، لوگوں کو سفری سہولت تو مل جائے گی۔ ہم اپنی ٹرانسپورٹ اپنی حیثیت سے بنائیں۔ رسال پور میں ریلوے ورک شاپ میں ہم انجن، ڈبے اور پٹریاں خود بہتر بناتے ہیں۔ ریلوے لائن پر اگر بستیاں بنالی گئی ہیں تو انھوں نے کوئی ٹھیک کام تو کیا نہیں۔ ناجائز طور پر مکان کی تعمیرات ہی نہیں کرنی چاہیے۔ چلو کر لیا اور برسوں ہو گئے انھیں وہاں رہتے ہوئے۔
حکومت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ انھیں متبادل جگہ فراہم کرے یا پھر کم از کم اسی گز کے مکانوں کے لیے رقوم فراہم کرے۔ یہ کام لیاری ایکسپریس وے بنانے کے وقت کیا گیا تھا مگر لیاری ایکسپریس پر سے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں گزرتی صرف کار والے یعنی محنت کش نہیں صرف متوسط طبقے کے لوگ ہی گزر سکتے ہیں مگر سرکلر ریلوے ٹرین بننے سے تقریبا سبھی محنت کش طبقے کے لوگ ہی سفر کرینگے۔
اگر ایک ٹرین میں چار ڈبے ہوتے ہیں تو دو دو ہزارکر کے 8ہزار لوگ بیک وقت سفر کرینگے۔ اگر ہر آدھ گھنٹے کے بعد ایک گاڑی چلا دی جائے تو کرایہ بھی کم ہو گا اور آدھی آبادی کا ٹرین پر سفرکرنے سے شہر کا رش کم ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ کاریں اور موٹر سائیکلیں رکھنا بھی بند کر دینگے۔ ہمیں بلاوجہ جاپان اور چین سے موٹر سائیکلوں اور کاروں کی درآمد کی بھرمار کرنے کی بجائے کمی ہونے سے زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ ریلوے ٹریک پر آباد چند سیکڑوں خاندان کو حکومت کم ازکم اسی، اسی گز کے مکانات یا اس کے لیے رقوم فراہم کیوں نہیں کر سکتی ہے؟ مگر اس میں ایک اور نہ سمجھنے والی دلیل سامنے آئی ہے۔ بعض حضرات یہ بے پر کی دلیل دے رہے ہیں کہ سرکلر ٹرین کی ضرورت ہی نہیں، ہم نہ اسے بنا سکتے ہیں اور نہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
کراچی کے سب سے بڑے چار مسائل سر پر کھڑے ہیں۔ مین گٹر لائن کی صفائی، کچرے کی صفائی، شفاف پانی کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اعلیٰ عدلیہ کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ریلوے ٹریک پر جہاں عرصے سے غریب محنت کش رہائش پذیر ہو چکے ہیں انھیں متبادل مکانوں کا انتظام کرنے کا حکم جاری کر کے اور سندھ و وفاقی حکومتیں سرکلر ٹرین چلانے میں سنجیدگی اختیارکرے۔
ہر بار دیکھا گیا کہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ ڈال کر سرکلر ریلوے ٹرین کی بحالی کو منجمد کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ایسا لگتا ہے کہ ٹرانسپورٹ مافیا، آئل مافیا، نوکر شاہی، ٹھیکیدار، حکومت اور ان کے کچھ دانشوروں کی شکل میں چھپے رستموں کا ہاتھ ہے۔ بہرحال کراچی میں ہزاروں بڑی بسیں چلائیں اور سرکلر ٹرین قائم کر کے ہر گھنٹے میں دو ٹرینیں چلائی جائیں۔ یہ کام اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہرچندکہ اصلاحات سے مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہوتے۔ اس کا مکمل حل امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے۔