سماج کی تاریخ خواتین کی جدوجہد اور تخلیقات سے بھری پڑی ہے۔ ویسے تو باقاعدہ کاشت کاری شروع کیے ہوئے انسان کو 50 ہزار سال ہو گئے، مگر اس سے قبل ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں برس سے انسان جنگلات میں رہتا آ رہا تھا۔ اس وقت اپنی ضروریات زندگی، علاج معالجے کے لیے جڑی بوٹیوں کے استعمال کی آزمائشوں سے انسان جن کٹھنائیوں سے گزرا، ان میں زیادہ تر خواتین ہی تھیں۔
ان جڑی بوٹیوں کے استعمال کے تجربوں سے نہ جانے کتنی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اجناس کا ذخیرہ کرنا، پھلوں اور سبزیوں کو توڑنا اور ذخیرہ کرنا، ابتدائی حساب کتاب کرنا، بیماریوں میں علاج کرنا، بچوں کی پرورش اور ان کی حفاظت، یہ سب کچھ خواتین ہی کرتی آ رہی تھیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ سماجی اور گھریلو معاملات کے انتظامات خواتین ہی سنبھالتی تھیں، مگر جب ریاست وجود میں آئی یعنی غلامانہ نظام رائج ہوا تو خواتین سے وہ سارے کام چھین لیے گئے جو منافع بخش آزادی اور قابل تخلیق تھے۔ آخرکار چار دیواریوں میں قید کر دیا گیا اور ایک بچہ پیدا کرنے والی مشین تک محدود کر دیا گیا۔
لیکن خواتین اپنے حقوق اور آزادی سے دست بردار نہیں ہوئیں۔ غلامی کے خلاف لڑی جانے والی جدوجہد ہو، جاگیرداری کے خلاف لڑی جانے والی معرکہ آرائی ہو یا سرمایہ داری کے خلاف جنگ ہر جدوجہد میں خواتین پیش پیش تھیں اور ہیں۔
دنیا میں سب سے پہلے ہالینڈ میں صنعتی انقلاب میں خواتین مردوں سے بھی آگے تھیں اور خواتین کی عالمی تنظیم بھی ہالینڈ (نیدر لینڈز) میں تشکیل پائی۔ پیرس کمیون سے لے کر بالشویک انقلاب، انقلاب چین، وال اسٹریٹ قبضہ تحریک سے لے کر پیلی جیکٹ اور ہانگ کانگ میں چلنے والی تحریکوں میں ہر جگہ ہر موقع پر خواتین نظر آئیں گی۔
اس لیے بھی کہ وہ سب سے زیادہ اس طبقاتی نظام میں استحصال زدہ ہیں۔ سوویت انقلاب سے قبل وسطی ایشیا، ایشیائے کوچک اورکوہ قاف میں 1917ء سے قبل ہزار میں 50 انجینئرز اور 100 میں 60 ڈاکٹرز خواتین تھیں اور آج تقریباً اس سے کچھ ہی کم ہوں گی۔ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے، جہاں خواتین کا اغوا، ریپ، قتل اور معاشی استحصال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
ہر چند کہ پاکستان میں خواتین کی جمہوری تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں اور ہیں لیکن محنت کش خواتین کی باقاعدہ کوئی تنظیم نہیں تھی۔ پاکستان میں جس طرح دیہاتوں میں بھٹہ مزدوروں، شہروں میں پاور لومز کے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر بکھرے ہوئے اور غیر منظم گھر مزدور (مرد و عورت) استحصال کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ گو جنسی اعتبار سے دونوں کا استحصال ہوتا ہے لیکن خواتین کا مرد مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ استحصال ہوتا ہے اور تذلیل آمیز زندگی بھی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
صوبہ سندھ کے بنیاد پر 30 دسمبر 2009ء میں کچھ نڈر اور باشعور خواتین جن میں زہرہ، شکیلہ، زاہدہ، سائرہ، جمیلہ، شمیم وغیرہ نے مل کر ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی۔ بعدازاں یہ انڈسٹریل گلوبل یونین کی رکن بھی بنی۔ اس وقت اس تنظیم میں یعنی (HBWWF) میں تقریباً ایک ہزار خواتین کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا جو اب بڑھ کر ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ پہنچ گئی ہے۔
اس تنظیم کی شاخیں کراچی، حیدرآباد، سانگھڑ، شاہ پور چاکر، ملتان، حب، کوئٹہ، نواب شاہ میں موجود ہیں۔ چونکہ خواتین گھر مزدور زیادہ استحصال زدہ تھیں، اس لیے اس کا نام HBWWF رکھا گیا۔ اب یہ تنظیم گھر مرد مزدوروں میں کام شروع کر دیا ہے۔ یعنی خواتین کے بجائے محنت کش طبقے کی بنیاد پر جدوجہد جاری ہے۔
HBWWF کی حیثیت کو 9 مئی 2018ء میں سندھ اسمبلی سے قانونی طور پر بل منظور کروا لیا گیا ہے۔ سندھ کی سہ فریقی ہر ادارے میں HBWWF کی نمایندگی موجود ہے۔ اب فیڈریشن نے گھر مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ کو بھی سندھ حکومت کی جانب سے منظور کروا لیا ہے۔ جس کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے۔ ہوم بیس وومن ورکرز فیڈریشن کی کارکنان، سندھ بھر میں مزدور، طلبا، وکلا، نرسوں، ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز، اساتذہ اور ہر قسم کے محنت کشوں کی جدوجہد میں عملی طور پر شرکت کرتی ہے۔
ہوم بیس ورکرز سندھ بھر میں سیاسی، سماجی اور معاشی شعورکو اجاگر کرنے کے لیے اسٹڈی سرکل چلاتی ہے جس میں وہ باشعور ہو کر اپنے کاموں میں فعالیت اختیار کریں۔ وہ کتابیں بھی پڑھتی ہیں اور سیمینار و سمپوزیم میں بھی شرکت کرتی ہیں۔
اس تنظیم نے دو بڑے سانحات کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا بلکہ عملی طور پر شرکت کی۔ علی انٹر پرائزز بلدیہ ٹاؤن میں آتشزدگی سے شہید ہونے والے 268 مزدوروں کے ذمے داروں اور قاتلوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کی اور کر رہی ہیں۔ شہدا کے لواحقین نے ایک تنظیم تشکیل دی جس کی سیکریٹری جنرل سعیدہ ہیں انھوں نے جرمنی کی عدالت سے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے تعاون سے 52 کروڑ روپے لواحقین کو دلوائے۔ ابھی حال ہی میں سعیدہ نے یورپی یونین کی بائیں بازو کے پارلیمنٹیرین سے خطاب کیا اور ان کے ساتھ NTUF کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور بھی سعیدہ کے ساتھ گئے تھے۔
علی انٹر پرائزز کے مزدوروں کی شہادت پر HBWWF نے قابل ذکر اور جرأت مندانہ قدم اٹھایا اور آج تک ان شہید مزدوروں کی یاد مناتی ہے۔ اسی طرح ایک اور بڑا واقعہ ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ میں آگ لگنے سے 7 مزدوروں کی شہادت پر بھی بھرپور جدوجہد کی اور ان کے لواحقین کو معاوضہ دلوایا۔ HBWWF یہ درست مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ کی طرح ملک بھر میں قانون سازی کی جائے اور گھر مزدوروں کی رجسٹریشن کروائی جائے اور کم از کم تنخواہ کا بھی اعلان کیا جائے۔
HBWWF خواتین کا عالمی دن 8 مارچ 20 اکتوبر اور 25 نومبر (خواتین پر تشدد کا عالمی دن) کو بھرپور اور انتہائی جوش و خروش سے مناتی ہے۔ اس فیڈریشن کے قیام کے ایک دہائی کے بعد 30 دسمبر 2019ء کو دن دو بجے آرٹس کونسل، کراچی میں کنونشن منعقد ہو گا۔