2021 کے سال کا آغازکچھ یوں ہوا۔ مچھ، بلوچستان میں 11 کان کن کی شہادت، اسی روزکوئلے کی کان میں 9 مزدور زہریلی گیس میں پھنس گئے، ایک کان کن شہید ہو گیا جب کہ باقی 8کو بہ حفاظت نکال لیا گیا۔
ملک میں لٹیرے آزاد پھر رہے ہیں جب کہ پتیلی چور جیل میں قید ہیں۔ ہاریوں کی نجی جیلوں سے رہائی کے بعد قید کرنے والے وڈیروں کوکوئی سزا نہیں دی جاتی۔ سندھ، بلوچستان اور سرائیکی علاقوں کے سردار قرضوں کے بہانے کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان ایک ہی خطہ ہے۔ یہاں مکیش امبانی ایشیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار بن گیا ہے جب کہ اسی ہندوستان میں 6.1 فیصد (سرکاری اعداد و شمارکے مطابق) لوگ بے روزگار ہیں۔ اسلام آباد میں اسامہ ستی کو گاڑی سے نکال کرگولیاں ماری گئیں۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ مارنے والے ہی گواہ اور مدعی اگر بن جائیں، تو انصاف کون دے گا۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں 6.9 فیصد کمی ہوئی۔ جب کہ کپاس کی جننگ میں 4.61 فیصد کمی واقع ہوئی۔ چینی مضر صحت ہے اور حکومت اس کی کاشت اور پیداوارکا لائسنس دیتی جا رہی ہے۔
آب پاشی کا پرانا نظام متروک ہو چکا ہے۔ کھیتوں میں پانی پہنچنے سے قبل ہی 64 فیصد پانی ضایع ہو جاتا ہے۔ قومی پیداوارکی نموگزشتہ مالی سال میں منفی 0.38 فیصد رہی ہے۔ فنانس ایکشن ٹاسک فورس بھی اس میں کوئی بہتری نہیں لا رہی ہے۔ او آئی سی ڈی کے مطابق حکومتوں کی جانب سے ملتوی کیے گئے ٹیکس اٹلی میں جی ڈی پی کے 13فیصد اور جاپان میں 5 فیصد کے برابر ہے۔
حال ہی میں جاپان، چین، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور آسیان ممالک سمیت ایک نیا اتحاد بنا ہے جس کے معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔ اس اتحاد میں شریک ممالک کو شرح ٹیکس کم کرنی ہوگی اور کرنسی کو بھی ڈی ویلیوکرنا ہوگا۔ اب پاکستان شاید ایسا نہ کرپائے جس سے اسے مالی مشکلات کا مزید سامنا کرنا پڑے گا۔
کورونا وبا کے دوران کمپنیوں کی تمام تجارتی سرگرمیاں بند ہونے کے باوجود امریکا میں کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ٹیکس کی چھوٹ، حکومتی قرض اور امداد ہے۔ امریکا میں کارپوریٹ سیکٹرکو ٹرمپ نے 12 سو ارب ڈالرکا امدادی پیکیج دیا تھا۔ 2020 کی تیسری سہ ماہی میں کارپوریٹ منافعوں میں 495 ارب ڈالرکا اضافہ ہوا جب کہ 2019 کی دوسری سہ ماہی میں 209 ارب ڈالرکا نقصان ہوا تھا۔ حکومتی امداد کا زیادہ حصہ بڑی کمپنیوں کو دیا گیا تھا جس میں ٹیکنالوجی کی کمپنیاں شامل ہیں جو اس بحران میں سب سے کم متاثر ہوئی ہیں۔
حکومتی امداد کی بندش اور ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے بعد قرض پر سود اور تنخواہوں کے اخراجات بڑھ جائیں گے جب کہ چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں کو دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی قرض 2019 میں عالمی جی ڈی پی کے 320 فیصد کے برابر تھا جوکہ 2020 میں بڑھ کر 365 فیصد ہو چکا ہے۔ یہ 15 ہزار ارب ڈالرکا اضافہ ہے جوکہ کورونا کے بعد ہوا ہے۔ چین میں ایک بڑی تعداد کمپنیوں کی ہے جو اتنی مقروض ہیں کہ اپنے بانڈز پر سود کی ادائیگی نہیں کرسکیں گی اور حکومت کے لیے بہت مشکلات پیدا کریں گی۔
چین کی حکومت کو ان کمپنیوں کو بچانے کے لیے مزید قرض دینا پڑے گا۔ کورونا وبا کے باعث یورپ کا معاشی بحران بہت شدت اختیارکرگیا ہے۔ اس بحران کے تحت معاشی کٹوتیوں کی پالیسیوں میں شدت آئے گی اورکورونا کی وجہ سے تعطل کا شکار تحریک یورپ میں ایک بار پھر اپنا اظہار کرے گی۔ 2020 میں انتہائی دائیں بازوکی حکومتیں دنیا پر راج کرتی رہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ 2021 میں نیولبرل کا غلبہ ہوگا اورکچھ ملکوں میں سوشل ڈیموکریٹس بھی حکومت میں آجائیں گے، جب کہ ارجنٹینا، چلی، ایکواڈور، فرانس، امریکا، آسٹریلیا، ہندوستان اور پاکستان وغیرہ میں چلنے والی تحریکیں بائیں کی طرف جھکیں گی۔
پاکستان میں بیتے برس کے اہم واقعات میں انقلابی رہنما محمد میاں اور ڈاکٹر لال جان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اسلام آباد میں جو ڈاکٹرز باہر سے پڑھ کر آئے ہیں انھیں ملازمت نہ ملنے پر مظاہرہ کیا۔ ان کے مطالبات ماننے یا ان سے مذاکرات کرنے کے بجائے ان پر لاٹھی چارج اور واٹر کیننوں سے تواضح کی گئی۔ اسی روز مظفر آباد آزاد کشمیر میں اساتذہ نے اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے کیے تو ان پر بھی پانی کی توپیں چلائی گئیں۔
انتظامیہ نے پرتشدد رویہ اختیار کیا۔ میڈیا کی نظروں میں یہی صورتحال دائیں بازو کی دنیا بھر میں ساری حکومتوں کی ہے مودی ہوں، میکرون ہوں یا ٹرمپ۔ حال ہی میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے شکست پر وہ اپنی ناکامیابی کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔
انھوں نے اشتعال انگیز تقریر کرکے اپنے کارکنوں کو مشتعل کیا جو واشنگٹن ڈی سی کے کانگریس ہال پر ڈنڈے، پتھر اور آتش گیر مادے لے کر ہال میں گھس گئے۔ سینیٹ اراکین اپنی جان بچانے کے لیے کونے کھدروں میں چھپ گئے۔ ٹرمپ کے کارکنان نے سینیٹ اراکین پر لاٹھیاں برسائیں۔ سیکیورٹی اہلکار سے مڈ بھیڑ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ ہے جمہوریت کے علم برداروں کی اصل شکل۔ جب کہ دنیا کے 100 سے زیادہ خطوں میں انارکسٹ خطوں، کمیون سوسائٹی اور امداد باہمی کے آزاد سماج میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہاں مشترکہ مملکت ہے، وہاں کوئی حکومت اور اقتدارکا تصور نہیں ہے۔